How to be good parent - 10 qualities to be good parents

کرٹیسی دنیا

رضوان عطا

عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ چھوٹا بچہ ضد کرتا ہے کہ اسے کوئی ٹافی، چاکلیٹ یا آئس کریم چاہیے اور والدین انکار کر دیتے ہیںتو اس کے بعد بچے کے رونے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ کچھ بچے مطالبات منوانے کے لیے بہت زیادہ شور و غوغا کرتے ہیں۔ والدین بظاہر بچے کی بہتری کے لیے انکار کرتے ہیں لیکن پھر بعض اوقات انہیں سمجھ نہیں آتی کہ صورت حال پر کیسے قابو پائیں۔یہ تو رہا ایک مسئلہ، بچوں کی تربیت کے دوران والدین کو قدم قدم پر مشکل اور پیچیدہ صورت حال کا سامنا ہوتا ہے اور جو انہیں کبھی متزلزل کرتا ہے تو کبھی الجھاؤ میں مبتلا کر دیتا ہے۔ بچوں کی تربیت آسان کام نہیں۔ اس سلسلے میں بہت سے سوالات اٹھتے ہیں۔ جیسا یہ کہ اس کا مقصد کیا ہونا چاہیے؟ بچہ کیسے والدین کی بات ماننے کو تیار ہوگا؟ کیا اسے خوف زدہ کرنا چاہیے؟ اس میں اعتماد کیسے پیدا کیا جا سکتا ہے؟ اسے کیسے بہتر انسان بنایا جاسکتا ہے؟ یہ اور ایسے بہت سے سوال سوچ بچار، تجربے اور مہارت کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اچھی تعلیم و تربیت کا مطلب ہے کہ بچے میں ہمدردی، ایمانداری، خودمختاری، اپنے اوپر کنٹرول اور تعاون جیسی خصوصیات کو پیدا کیا جائے۔ اس کے اندر تجسس اور جستجو کے ساتھ خوش رہنے کا جذبہ بھی بیدارہونا چاہیے۔ بچے کی تربیت اس طرح کی جائے کہ وہ پریشانی ، مایوسی اور برے کاموںسے دور رہے۔ والدین اور بچے کے درمیان تعلقات اچھے ہونے چاہئیں ورنہ بچے بات نہیںمانتے یا کم از کم دل سے نہیں مانتے۔بچے اور والدین کے درمیان بہتر تعلقات سے باہمی اعتماد کا رشتہ پیدا ہوتا ہے۔ اچھی تربیت کا عکس بچے میں دکھائی دیتا ہے۔ بچوں کی دیکھ بھال کے لیے والدین میں متعدد خصوصیات کا ہونا لازم ہے۔ ان میں سے10 خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں۔ 1۔ عمل اہم ہے:بچے والدین کے اعمال کا بغور مشاہدہ کرتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ وہ اس بارے میں بتلائیں یا کوئی ردعمل ظاہر کریں لیکن اس کا ان کے کردار پر اثر ضرور پڑ رہا ہوتا ہے۔ اس لیے بچوں کے سامنے اپنے افعال سے لاپرواہی نہیں برتنی چاہیے۔ بچوں کے سامنے جھوٹ بولنے سے وہ اسے بھی سیکھ سکتے ہیں۔ 2۔ پیار کرنا:بچے کو ملنے والا پیار اسے خراب نہیں کرتا۔ بچے سے پیار کا بے حداظہار کرنا مسئلہ نہیں۔ مسئلہ تب ہوتا ہے جب پیار کی جگہ پر اسے کوئی دوسری چیز دے دی جاتی ہے جیسے اسے ہر کام اپنی مرضی سے کرنے کی اجازت دینا یا کوئی کھانے کی شے پکڑا دینا۔ 3۔ بچے کی زندگی میں شمولیت:بچے کے روزمرہ معمولات میں شامل ہونا وقت طلب اور دشوار کام ہے۔ والدین کے لیے اس کا مطلب ہوگا کہ وہ اپنے معمولات میں بچے کی ضرورت کے مطابق تبدیلی لائیں۔ اس کے لیے انہیں اپنی ترجیحات میں بدلاؤ لانا پڑتا ہے اور ناصرف جسمانی بلکہ ذہنی موجودگی کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔ اچھے والدین میں بچے کے امور میں شمولیت کی خاطر لچک دار ہونے کی خاصیت ہونی چاہیے۔ خیال رہے کہ اس شمولیت کا مطلب محض بچے کے ہوم ورک میں اس کی مدد کرنے یا اس میں پائی جانے والی اغلاط کی درستی نہیں۔ گھر میں بچے کی زندگی ہوم ورک سے کہیں بڑھ کر ہوتی ہے۔ 4۔ وجہ تلاش کرنا:عمر کے ساتھ بچے کی ضروریات بدلتی جاتی ہیں لہٰذا انہیں کے مطابق والدین کوخود کو بدلنا ہوتا ہے۔ جس انداز میں تین سالہ بچے کے ساتھ بات ہو سکتی ہے، 13 سالہ بچے کے ساتھ نہیں کی جاسکتی۔ چھوٹے بچے کے لیے دلائل کا اندازاورہوتا ہے اور بڑے کے لیے اور۔ اسی طرح ان کے مسائل اور ان مسائل کا پہچاننے کا طریقہ بھی مختلف ہوتا ہے۔ مثلاً چھوٹے بچے کی نیند کے بارے میں والدین کو زیادہ پتا ہوتا ہے کیونکہ وہ ان کے ساتھ سوتا ہے لیکن بڑے بچے عموماً علیحدہ ہوتے ہیں۔ اس لیے والدین بے خبر رہتے ہیں۔ نیند کا نہ آنا بچے کی پریشانی یا ڈپریشن کی علامت ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت حال میں بچے کی تعلیم متاثر ہوسکتی ہے اور والدین وجہ جانے بغیر اس پر دباؤ ڈال سکتے ہیں جس سے وہ مزید پریشان ہوسکتا ہے۔ بچے پر زیادہ دباؤ ڈالنے کی بجائے اس کی جڑ تک پہنچنا چاہیے اور اس لیے عمر کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے۔ 5۔ قواعد و ضوابط:عام طور پر بہت چھوٹے بچوں کے لیے قواعد و ضوابط وضع نہیں کیے جاتے اور انہیں مرضی کرنے دی جاتی ہے۔ لیکن ایسا کرتے رہنے سے عمر بڑھنے کے ساتھ ان کا نظم و ضبط متاثر ہونے لگتا ہے اور بے انتظامی ان کے مزاج کا حصہ بن جاتی ہے۔ دن ہو یارات ان تین سوالوں کے جوابات ہمیشہ والدین کے پاس ہونے چاہئیں۔ اول،بچہ یا بچی کہاں ہے؟ دوم، وہ کس کے ساتھ ہے؟ سوم۔ وہ کیا کر رہا ہے؟ ۔ 6۔ خودمختاری :بچے کو ہر وقت منع کرنے یا ڈانٹ ڈپٹ سے بچے کی اپنے اوپر کنٹرول کی صلاحیت پرورش نہیں پا تی۔ درست سمت میں اپنے فیصلے آپ کرنے کی حوصلہ افرائی کرنی چاہیے۔ ابتدا چھوٹے چھوٹے فیصلوں سے کرنا مناسب ہے۔ اسی طرح آہستہ آہستہ اسے خود مختاری دینی چاہیے۔ بعض والدین بچوں کی خودمختاری کو بغاوت یا حکم عدولی سے تعبیر کرتے ہیں ۔ آزادی انسانی سرشت میں شامل ہے اور ایک حد تک بچے کو بھی یہ حاصل ہونی چاہیے۔ 7۔ تسلسل:اگر والدین بچے سے ایک دن کوئی ایک بات کریں اور دوسرے دن کوئی دوسری تو وہ ابہام اور ذہنی انتشار کا شکار ہو جائے گا۔ بچے کے لیے طے کردہ قواعد و ضوابط میں تسلسل ہونا چاہیے۔ اسی طرح بچے کو طاقت کی بجائے حکمت سے کنٹرول کرنا چاہیے۔ 8۔ سختی:بچے کو مارنا نہیں چاہیے ۔ جن بچوں کو مارا جاتا ہے یا جن پر بہت زیادہ سختی کی جاتی ہے ان میں دوسرے بچوں سے لڑنے کا رجحان زیادہ ہوتا ہے۔ وہ عام طور پر زیادہ جارح ہوتے ہیں اور تنازع پیدا ہونے پر جھگڑا کرنے پر اتر آتے ہیں۔ ایسے بچوں کو دوسروں سے اچھے تعلقات استوار کرنے میں مشکل کا سامنا رہتا ہے۔ 9۔ قواعد و ضوابط اور فیصلوں کی وضاحت:بعض والدین بچوں کو کہتے رہتے ہیں کہ بس میں نے جو کہہ دیا سو کہہ دیا اب اس پر عمل کرو، یا یہ کہ بڑوں سے بحث نہیں کرتے وغیرہ۔ بڑوںکے فیصلوںکو سمجھنا بچے کے لیے مشکل ہوتا ہے لیکن یہ ضروری بھی ہوتا ہے۔ یوں بچے انہیں دل سے تسلیم کرلیتے ہیں۔ اگر بچہ جلدی جلدی کھانا کھا رہا ہے تو اسے منع کرنا چاہیے لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی بتانا چاہیے کہ یوں کھانے کے کیا کیا نقصانات ہیں۔ 10۔ احترام : کہا جاتا ہے کہ اگر اپنی عزت کروانی ہو تو دوسرے کو عزت دو۔ بچوں کے معاملے میں اس اصول کو نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ اگر والدین چاہتے ہیں کہ بچے ان کا احترام کریں تو یہ کام ڈانٹ ڈپٹ سے نہیں ہوگا اور اگر ہو گا تو احترام حقیقی نہیں ہوگا۔ بچوں سے آرام اور پیار سے بات کرنی چاہیے۔ ان کی آرا کو جگہ دینی چاہیے اور انہیں بولنے کا موقع دینا چاہیے۔والدین بچے سے جو سلوک کریں گے وہ اس کی شخصیت کا حصہ بنے گا اور بعد ازاں وہ دوسروں سے بھی اسی طرح پیش آئے گا۔ اگر والدین مذکورہ 10 نکات میں پیش کردہ خصوصیات کے حامل ہوں تو وہ بچوں کی اچھی تربیت کر سکتے ہیں جو انہیں مستقبل میں بہتر اور کامیاب انسان بننے میں معاون ہوں گی۔ ٭…٭…٭

- See more at: Dunya


Post a Comment

Previous Post Next Post