#UrduJoke - Sardar's most funny joke....read it ☻ ☺

مزے مزے کے لطیفوں کے لئے ہمارے فیس بک پیج کو ضرور لائیک کریں: جوکس شیر کریں تاکہ آپ کے دوست بھی لطف اندوز ہوسکیں #لطیفہ #لطیفے #جوکس #اردو_لطیفے #فنی_تصویر

4 Comments

  1. بوڑھے باپ اور اس کے بیٹے کی ایک ایسی کہانی کہ دل رو دے: ضرور پڑھیں

    ایک بوڑھا آدمی اپنے بیٹے کے ساتھ ایک پارک میں بیٹھا آرام کر رہا تھا۔ موسم بہت اچھا ، دھوپ بھی نکلی ہوئی تھی اور دھوب کی تپش بوڑھے شخص کی بوسیدہ ہڈیوں سکون دے رہی تھی۔ ساتھ میں ایک بہت حسین جھیل تھی، اس میں دور سے بطخیں تیرتی اور پرندے اڑتے نظر آرہے تھے۔ دونوں باپ بیٹا بیٹھے ایک بینچ پر بیٹھ کر فروٹ کھا رہے تھے۔ بیٹا جوان ہونے کے ساتھ بہت ہونہار بھی تھا، اچھی تعلیم حاصل کی تھی۔ اس کی تعلیم میں باپ نے کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ ابھی سی ایس ایس کا امتحان پاس کرکے بہت اچھی جاب پر لگ گیا تھا۔ دونوں بیٹھے خوبصورت فضا سے محظوظ ہو رہے تھے کہ ایک کوّا آکر ساتھ والے خشک فوارے پر بیٹھ گیا۔ باپ کی نظر چونکہ کمزور تھی اس نے اپنے بیٹے سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟
    بیٹے نے جواب دیا کہ ابو کوا ہے، فوارے پر آکر بیٹھا گیا ہے۔

    باپ نے ایک بار پھر دریافت کیا؟ بیٹے یہ کیا ہے؟
    بیٹھا تھوڑی جھنجلاہٹ سے بولا کوا، کوا ہے، کوا۔
    باپ نے ایک بار پھر اُس سے پوچھا کہ بیٹے یہ کیا چیز ہے؟
    بیٹا تنگ آگیا اور زور سے جھنجلا کر بولا کہ کتنی بار بولوں، ایک بار سمجھ نہیں آتی کیا؟
    کیوں مجھے تنگ کرتے ہیں، آپ کو کیا ہے کہ یہ کیا ہے کررہے ہو، آپ نے کیا کرنا ہے، بول تو رہا ہوں۔ کوا ہے، کوا ہے، کوا ہے۔ بس اب چپ کر جائیں، ایسے ہی میرا موڈ خراب کر دیا۔
    اس کے باپ نے اس کو مسکرا کر دیکھا اور بولا اچھا کوا ہے۔ ٹھیک ہے۔
    دراصل مجھے وہ وقت یاد آرہا تھا جب اسی جگہ اسی پارک میں، میں اور تم بیٹھے تھے اور اسی فوارے پر ایک کوا آکر بیٹھا تھا، تم اس وقت 3سال کے تھے اور تم نے یہی سوال کیا تھا کہ یہ کیا چیز ہے؟

    میرے سے یہ سوال 100 دفعہ کیا تھا اور میرا جواب ہر بار ایک ہی طرح پیار سے ہوتا تھا، میں نے ہر بار جواب دیتا اور ساتھ ساتھ تمہیں میں چوما بھی تھا۔ ابھی بھی وہ وقت یاد کرتا ہوں تو دل خوش ہو جاتا ہے، تم بہت پیارے تھے، بہت ہی معصوم۔کتنا پیارا وقت تھا اور آج میرا بیٹا کتنا ہونہار ہو گیا ہے،
    ہاں شاباش بیٹے…آئی ایم پراؤڈ آف یو….
    بیٹا اپنے کئے پر بہت شرمندہ اور پشیمان ہوا۔
    ماں باپ اپنی جوانی ہمارے لئے وقف کر چکے ہوتے ہیں۔ اپناسب کچھ ہم پر قربان کرکے ہمارے پالتے پوستے ہیں۔ یہ اللہ کا بہت بڑا انعام ہوتا ہے، ماں باپ سے بڑھ کر دنیا کی کوئی دولت نہیں۔
    ہمیں ان کی قدر کرنی چاہئے ۔ جب یہ بڑھاپے کو پہنچتے ہیں تو یہ ہماری زیادہ توجہ کے مختاج ہوجاتے ہیں۔ ہمیں ان کے سامنے اف تک نہ کرنے کا حوکم ہے۔ بحیثیت مسلمان تو ہم پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ لیکن بحیثیت انسان بھی ہمیں اپنے ماں باپ کی خدمت کرتے رہنا چاہئے۔

    جن کے ماں باپ ہیں اللہ ان کو لمبی زندگی دے اور جن کے فوت ہوچکے ہیں اللہ جنت نصیب کرے : امین

    ReplyDelete
  2. بوڑھے باپ اور اس کے بیٹے کی ایک ایسی کہانی کہ دل رو دے: ضرور پڑھیں

    ایک بوڑھا آدمی اپنے بیٹے کے ساتھ ایک پارک میں بیٹھا آرام کر رہا تھا۔ موسم بہت اچھا ، دھوپ بھی نکلی ہوئی تھی اور دھوب کی تپش بوڑھے شخص کی بوسیدہ ہڈیوں سکون دے رہی تھی۔ ساتھ میں ایک بہت حسین جھیل تھی، اس میں دور سے بطخیں تیرتی اور پرندے اڑتے نظر آرہے تھے۔ دونوں باپ بیٹا بیٹھے ایک بینچ پر بیٹھ کر فروٹ کھا رہے تھے۔ بیٹا جوان ہونے کے ساتھ بہت ہونہار بھی تھا، اچھی تعلیم حاصل کی تھی۔ اس کی تعلیم میں باپ نے کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ ابھی سی ایس ایس کا امتحان پاس کرکے بہت اچھی جاب پر لگ گیا تھا۔ دونوں بیٹھے خوبصورت فضا سے محظوظ ہو رہے تھے کہ ایک کوّا آکر ساتھ والے خشک فوارے پر بیٹھ گیا۔ باپ کی نظر چونکہ کمزور تھی اس نے اپنے بیٹے سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟
    بیٹے نے جواب دیا کہ ابو کوا ہے، فوارے پر آکر بیٹھا گیا ہے۔

    باپ نے ایک بار پھر دریافت کیا؟ بیٹے یہ کیا ہے؟
    بیٹھا تھوڑی جھنجلاہٹ سے بولا کوا، کوا ہے، کوا۔
    باپ نے ایک بار پھر اُس سے پوچھا کہ بیٹے یہ کیا چیز ہے؟
    بیٹا تنگ آگیا اور زور سے جھنجلا کر بولا کہ کتنی بار بولوں، ایک بار سمجھ نہیں آتی کیا؟
    کیوں مجھے تنگ کرتے ہیں، آپ کو کیا ہے کہ یہ کیا ہے کررہے ہو، آپ نے کیا کرنا ہے، بول تو رہا ہوں۔ کوا ہے، کوا ہے، کوا ہے۔ بس اب چپ کر جائیں، ایسے ہی میرا موڈ خراب کر دیا۔
    اس کے باپ نے اس کو مسکرا کر دیکھا اور بولا اچھا کوا ہے۔ ٹھیک ہے۔
    دراصل مجھے وہ وقت یاد آرہا تھا جب اسی جگہ اسی پارک میں، میں اور تم بیٹھے تھے اور اسی فوارے پر ایک کوا آکر بیٹھا تھا، تم اس وقت 3سال کے تھے اور تم نے یہی سوال کیا تھا کہ یہ کیا چیز ہے؟

    میرے سے یہ سوال 100 دفعہ کیا تھا اور میرا جواب ہر بار ایک ہی طرح پیار سے ہوتا تھا، میں نے ہر بار جواب دیتا اور ساتھ ساتھ تمہیں میں چوما بھی تھا۔ ابھی بھی وہ وقت یاد کرتا ہوں تو دل خوش ہو جاتا ہے، تم بہت پیارے تھے، بہت ہی معصوم۔کتنا پیارا وقت تھا اور آج میرا بیٹا کتنا ہونہار ہو گیا ہے،
    ہاں شاباش بیٹے…آئی ایم پراؤڈ آف یو….
    بیٹا اپنے کئے پر بہت شرمندہ اور پشیمان ہوا۔
    ماں باپ اپنی جوانی ہمارے لئے وقف کر چکے ہوتے ہیں۔ اپناسب کچھ ہم پر قربان کرکے ہمارے پالتے پوستے ہیں۔ یہ اللہ کا بہت بڑا انعام ہوتا ہے، ماں باپ سے بڑھ کر دنیا کی کوئی دولت نہیں۔
    ہمیں ان کی قدر کرنی چاہئے ۔ جب یہ بڑھاپے کو پہنچتے ہیں تو یہ ہماری زیادہ توجہ کے مختاج ہوجاتے ہیں۔ ہمیں ان کے سامنے اف تک نہ کرنے کا حوکم ہے۔ بحیثیت مسلمان تو ہم پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ لیکن بحیثیت انسان بھی ہمیں اپنے ماں باپ کی خدمت کرتے رہنا چاہئے۔

    جن کے ماں باپ ہیں اللہ ان کو لمبی زندگی دے اور جن کے فوت ہوچکے ہیں اللہ جنت نصیب کرے : امین

    ReplyDelete

Post a Comment

Previous Post Next Post