رنجِ فراقِ یار میں رسوا نہیں ہوا
اتنا میں چُپ ہوا کہ تماشہ نہیں ہوا
ایسا سفر ہے جس میں کوئی ہمسفر نہیں
رستہ ہے اس طرح کا کہ دیکھا نہیں ہوا
مشکل ہوا ہے رہنا ہمیں اِس دیار میں
برسوں یہاں رہے ہیں، یہ اپنا نہیں ہوا
وہ کام شاہِ شہر سے یا شہر سے ہوا
جو کام بھی ہوا یہاں اچھا نہیں ہوا
ملنا تھا ایک بار اُسے پھر کہیں منیر
ایسا میں چاہتا تھا پر ایسا نہیں ہوا
Post a Comment