نگاہ ناز کا اک وار کر کے چھوڑ دیا
دل حریف کو بیدار کر کے چھوڑ دیا
ہوئی تو ہے یوں ہی تردید عہد لطف و کرم
دبی زبان سے اقرار کر کے چھوڑ دیا
مجھے تو قید محبت عزیز تھی لیکن
کسی نے مجھ کو گرفتار کر کے چھوڑ دیا
نظر کو جرأت تکمیل بندگی نہ ہوئی
طواف کوچۂ دلدار کر کے چھوڑ دیا
زہے نصیب کہ دنیا نے تیرے غم نے مجھے
مسرتوں کا طلب گار کر کے چھوڑ دیا
کرم کی آس میں اب کس کے در پہ جائے شکیلؔ
جب آپ ہی نے گنہ گار کر کے چھوڑ دیا
Post a Comment