رات اڑھائی سے تین بجے کا وقت ہوگا میں تکیے پہ سر ٹکائے سو رہا تھا جب اچانک فون کی وائبریشن سے مجھے اٹھنا پڑا ۔
تکیے کے نیچے سے موبائل نکال کر دیکھا تو سکرین پہ اُس کا نمبر نام سمیت جگمگا رہا تھا۔
بے شک وہ زندگی سے چلی گئی تھی مگر اس کا نمبر آج بھی سیو تھا بالکل اسکی یادوں کی طرح۔
اتنی رات کو اسکی کال دیکھ کر ایک دم سے نیند چھو منتر ہو گئی اور دل کی دھڑکن بھی نجانے کیوں بڑھ سی گئی۔
بڑی مشکل سے خود کو سنبھال کر کال ریسیو کی اور بھرم رکھنے کو بہت غصے سے ""ہیلو" کیا
دوسری طرف سے اُسکی سسکی ابھری اور رونے کی آواز آنے لگی اور میرے وجود کو پگھلانے لگی۔
وہ جو غصے اور بیزاری کی تہہ چڑھائی تھی ایک منٹ میں کافور ہو گئی اور میں تقریباً ٹوٹے ہوئے لہجے میں بس اس ِکے نام سے اسے پکار ہی پایا اور میری منہ سے بس "مہک" نکلا اور میں بھی اس کے ساتھ مل کر رونے لگا۔
چند لمحے یونہی گزر گئے پھر وہ روتے ہوئے بولی کہ آج سے چار سال پہلے ایک وعدہ تم نے لیا تھا مجھ سے اور میں نے دوبارہ کبھی تمکو مڑ کے نا دیکھا مگر آج ایک وعدہ مجھے چاہیے تم سے اس لیے میں رابطہ کیا تم سے ورنہ کبھی تمہاری زندگی میں واپس نا آتی ایک لمحے کو بھی۔
میرے دل سے ایک آہ سی نکلی اور بیتے ہوئے چار سالوں کا ہر ہر لمحے کا پیا ہوا سب آنسو سارے بند توڑ کر بہہ نکلے۔
مجھے چار سال پہلے کا ِوہ منظر صاف دکھائی دینے لگا جب بابا کو بستر مرگ پہ دیکھ کر انکی خواہش کے احترام میں میں نے پھپھو کی مریم سے شادی کی حامی بھر لی اور اُسکی تمام محبت اور دیوانگی کو اپنی قسم دے کر ایک وعدے کا پابند کر کے خود سے دور کر دیا اسے بغیر کچھ بتائے اور وہ پگلی میری محبت میں اتنی جنونی تھی کہ بغیر کچھ پوچھے بس اک قسم کی خاطر چپ چاپ اس وعدے کی پابند ہو گئی اور دوبارہ کبھی لوٹ کر نا آئی۔
اور آج اچانک پتہ نہی کس جذبے کے تحت کس وعدے کا پابند کرنے لوٹ آئی تھی
میں نے لہجے کو مضبوط کیا اور پورے دل سے کہا کہ تم جو کہو گی مجھے ہر بات منظور ہے جو وعدہ لینا چاہتی ہو میں نبھانے کو تیار ہوں..
اک آزمائش تم نے کاٹی اب اپنی محبت کو میں آزماؤں گا
بولو کیا وعدہ چاہیے تمہیں؟؟
وہ دو لمحے تو چپ رہی پھر بولی وعدہ کرو کہ
""اس واری الیکشن ہوئے تاں ووٹ گنجیاں نوں نا دیویں گا""
اور ساتھ ہی لائن خاموش ہو گئی۔۔۔
Post a Comment