عجب سی، بے سبب سی، وحشتیں ہیں، الجھنیں ہیں​ : مکمل نظم پڑھیں لنک پر

فقط دل ہے محبت کی صدا کوئی نہیں ہے​
خدا کا گھر تو ہے لیکن خدا کوئی نہیں ہے​
خدا کا شکر چہرے پر مرے ہے مسکراہٹ​
خدا کا شکر دل میں جھانکتا کوئی نہیں ہے​
عجب سی، بے سبب سی، وحشتیں ہیں، الجھنیں ہیں​
عجب یہ مسئلہ ہے مسئلہ کوئی نہیں ہے​
تری ہی آرزو ہے، جستجو ہے، کو بہ کو ہے​
ہمارے دل میں اک تیرے سِوا کوئی نہیں ہے​
غضب یہ ہے محبت کے ہیں دعوے ہر زباں پر​
محبت کے تقاضے جانتا کوئی نہیں ہے​
ابھی تو ہے جنوں تیرا فقط اک طفلِ مکتب​
سلامت ہے قبا، پتھر اٹھا کوئی نہیں ہے​
وہ اک فنکار جس نے فن کو اپنی عمر دے دی​
مگر افسوس اسے اب جانتا کوئی نہیں ہے​
شبِ ظلمت جلائے دیپ ہم نے ہی لہو کے​
جو دن نکلا تو ہم کو پوچھتا کوئی نہیں ہے​
غزل گوئی نے راجا کردیا بدنام لیکن​
مری غزلوں کے پیچھے سانحہ کوئی نہیں ہے​

امجدعلی راجا


Post a Comment

Previous Post Next Post