یہ وزیرانِ کرام
کوئی ممنونِ فرنگی، کوئی ڈالر کا غلام
دھڑکنیں محکوم ان کی لب پہ آزادی کا نام
ان کو کیا معلوم کس حالت میں رہتے ہیں عوام
یہ وزیرانِ کرام
ان کو فرصت ہے بہت اونچے امیروں کے لیے
ان کے ٹیلیفون قائم ہیں سفیروں کے لیے
وقت ان کے پاس کب ہے ہم فقیروں کے لیے
چھو نہیں سکتے انہیں ہم ان کا اونچا ہے مقام
یہ وزیرانِ کرام
صبح چائے ہے یہاں تو شام کھانا ہے وہاں
کیوں نہ ہوں مغرور چلتی ہے میاں ان کی دکاں
جب یہ چاہیں ریڈیو پر جھاڑ سکتے ہیں بیاں
ہم ہیں پیدل، کار پر یہ کس طرح ہوں ہمکلام
یہ وزیرانِ کرام
قوم کی خاطر اسمبلی میں یہ مر جاتے بھی ہیں
قوتِ بازو سے اپنی بات منواتے بھی ہیں
گالیاں دیتے بھی ہیں اور گالیاں کھاتے بھی ہیں
یہ وطن کے آبرو ہیں کیجیے ان کو سلام
یہ وزیرانِ کرام
ان کی محبوبہ وزارت، داشتائیں کرسیاں
جان جاتی ہے تو جائے پر نہ جائیں کرسیاں
دیکھیے یہ کب تلک یوں ہی چلائیں کرسیاں
عارضی ان کی حکومت عارضی ان کا قیام
یہ وزیرانِ کرام
Post a Comment