اہلیان مومی اور شالی ارکاری کے ساتھ سلیم خان کا سوتیلی ماں جیسا سلوک
منہاج الدین
ان دنوں سلیم خان اور ان کے حواریوں کی جانب سے یہ واویلا کیا جارہا ہے کہ مومی ویلی میں ترقیاتی کاموں کا جال بچھایا گیا ہے اور سلیم کی حکومت میں ریکارڈ ترقیاتی کام کئے گئے ہیں حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔کیونکہ سال 2015ء میں سلیم خان نے ایک پائپ لائن پینے کے پانی کے لئے اعلان کیا اور کنٹریکٹ اپنے ایک رشتہ دار کو دیا تھا۔ کمیونٹی کی طرف سے یہ اسرار کیا گیا کہ جس چشمے کو سلیکٹ کیا گیا ہے وه پینے کے قابل نہیں اور اسکا لیبارٹری رپورٹ بھی موجود ہے جس میں اس چشمے کو مضر صحت قرار دیا گیا ہے۔ مگر سلیم خان اور ٹھیکہ دار نے ایک نہ سنا کیونکہ وه چشمہ نزدیک تھا اور کم خرچ میں پورا ہوتا تھا اور کمیشن کی مد میں خطیر رقم بچتا تھا۔ اسکا رپورٹ بھی نیوز چینل پر آیا تھا مگر قوم کی میموری کمزور ہے۔
اب یہ حال ہے کہ کروڑوں کی لاگت سے جو پانی پینے کے لئے لایا گیا تھا وه اب استعمال کے قابل نہیں ہے اور لوگ اسے واشنگ اور دوسرے گھریلو ضروت کے لئے استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ دوسری طرف مومی میں موجود گورنمنٹ سکول کو اپ گریٹ کرنے اعلان کیا تھا اور تین بار ناقص میٹیریل کی وجہ سے اس بلڈنگ کو ناکام قرار دیا گیا تھا مگر آخر میں تعلقات کا سہارا لیکر سے منظور کروایا مگر اب تک اسٹاف کے بےغیر خالی بلڈنگ پڑا ہے۔
ادھر شالی ارکاری میں سکول بنانے کا اعلان کیا اور بعد میں وہاں پر موجود آغاخان سکول کے بلڈنگ کوہی نجی معاہدے کے تحت لیکر گورنمنٹ ہائی سکول سفید ارکاری سے دو اساتذہ کو شالی میں ٹرانسفر کروایا اور لوگوں سے کہا گیا کہ اس سکول کو مڈل سکول کا درجہ دیا گیا ہے اور بعد میں پتہ چلا کہ شالی میں کوئی سکول کی منظوری نہیں ہوئی ہے اور جو ٹیچر ارکاری سے شالی ٹرانسفر کئے گئے ہیں وہ ای ڈی او ایجوکیشن کی خصوصی منظوری سے ہوئی ہے اور کمیونیٹی سکول کو ٹیویشن سینٹر کا درجہ دیا گیا ہے جو علاقے کے عوام اور نوجوانون کی مستقبل کے ساتھ کھیلنے کے مترادف ہے اور اگر یہ کام نیک نیتی سے بھی کیا گیا ہے تو مڈل سکول کو اساتذہ کسطرح چلا پائیں گے۔ اور یہ کارہائے نمایاں سلیم خان کی سربراہی میں شالی ارکای میں انجام دیا جارہا ہے جہاں ایک ٹیچر ہفتے میں 72 کلاس لینے پر مجبور ہے۔
اور سفید ارکاری میں دو ٹیچر کم ہونے کی صورت میں وہاں بھی بچوں کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے۔ مگر اس ملک میں لوگ اپنے سیاسی مقاصد کے لئے ہر طرح کے حربے استعمال کر رہے ہیں۔ ان کو اگر فکر ہے تو اپنے کرسی کی ہے قوم کے معماروں کے مستقبل دوئو پر لگ جائے یا پھر قوم کی جذبات کے ساتھ کھیلا جائے، ہمارے سیاسی نمائندہ گاہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
Post a Comment