آندھی چلی تو نقش کف پا نہیں ملا
دل جس سے مل گیا وہ دوبارہ نہیں ملا
آواز کو تو کون سمجھتا کہ دور دور
خاموشیوں کا درد شناسا نہیں ملا
بجھ گیا شام حرم باب کلیسا نہ کھلا
گل گئے زخم کے لب تیرا دریچہ نہ کھلا
چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ
ہم اُس کے پاس جاتے ہیں مگر آہستہ آہستہ
گریہ تو اکثر رہا پیہم رہا
پھر بھی دل کے بوجھ سے کچھ کم رہا
دیوانے کو تکتی ہیں تیرے شہر کی گلیاں
نکلا تو اِدھر لوٹ کے بدنام نہ آیا
مت پوچھ کہ ہم ضبط کی کس راہ سے گزرے
یہ دیکھ کہ تجھ پر کوئی الزام نہ آیا
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
انہیں پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آئو
میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
قدم قدم پہ تمنائے التفات تو دیکھ
زوال عشق میں سوداگروں کا ہاتھ تو دیکھ
مصطفی زیدی
Post a Comment