وہ سرہانے کتاب رکھتے ہیں
جانے کیا کیا حساب رکھتے ہیں
جاگ کر جو گزارتے ہیں رات
وہ بھی آنکھوں میں خواب رکھتے ہیں
میری تربت پہ باوفا قاتل
روز تازہ گلاب رکھتے ہیں
دل کش ان کی ہیں بے حجاب آنکھیں
وہ جو رخ پر نقاب رکھتے ہیں
پر شکستہ صحیح، سینے میں
دل تو ہم بھی جناب رکھتے ہیں
وہ بھی اہلِ وفا ہیں جو اب تک؟
فہمِ عیب و صواب رکھتے ہیں
کیسے تنگ دل ہیں میکدے کے لوگ
برتنوں میں شراب رکھتے ہیں
ضبط کی ریت میں دبے آنسو
بے بسی کا عذاب رکھتے ہیں
قلبِ مردہ پہ خون کے دھبے
جانے کیا اضطراب رکھتے ہیں؟
ہم اکیلے سفر نہیں کرتے
رنج کو ہم رکاب رکھتے ہیں
فلسفیؔ تیرے شہر کے عاشق
خود کو زیرِ عتاب رکھتے ہیں
فلسفی
Post a Comment