عکس خوشبو ہوں، بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی
کانپ اُٹھتی ہوں یہی سوچ کہ تنہائی میں
میرے چہرے پہ تیرا نام نہ پڑھ لے کوئی
جس طرح خواب میرے ہو گئے ریزہ ریزہ
اس طرح سے نہ کبھی ٹوٹ کے بکھرے کوئی
میں تو اس دن سے ہراساں ہوں کہ جب حکم ملے
خشک پھولوں کو کتابوں میں نہ رکھے کوئی
اب تو اس راہ سے وہ شخص گزرتا بھی نہیں
اب کس اُمید پہ دروازے سے جھانکے کوئی
کوئی آہٹ، کوئی آواز، کوئی چاپ نہیں
دِل کی گلیاں بڑی سنساں ہیں آئے کوئی
پروین شاکر
Post a Comment