وہ تو ہر چاہنے والے پہ فدا لگتا ہے
جانے کس کس کا ہے جو مجھ کو مرا لگتا ہے
اس نے قدموں میں سجا رکھے ہیں امید کے پھول
دیکھنے والوں کو جو آبلہ پا لگتا ہے
اب نہ سن پائے گا وہ میری صدائیں شاید
وہ کہیں دور بہت دور گیا لگتا ہے
پر جو پھیلاتا نہیں خوف سے اپنے پنچھی
تازہ تازہ کسی پنجرے سے اڑا لگتا ہے
یہ جو ہم جیسا ہی انسان ہے انسان ابھی
اس کو مسند پہ بٹھا دیں تو جدا لگتا ہے
میں بھلا دیتا ہوں ہر بار جفائیں اس کی
جب بھی سینے سے مرے ٹوٹ کے آ لگتا ہے
آؤ اس پیار کو ہم آخری پرسہ دے دیں
اس طرح چھوڑ کے جانا تو برا لگتا ہے
Post a Comment