اس کی حسرت ہے ، جسے دل سے مٹا بھی نہ سکوں
ڈھونڈ نے اس کو چلا ہوں جسے پا ہی نہ سکوں
وصل میں چھیڑ نہ اتنا اسے اے شوق وصال
کہ وہ روئے تو کسی طرح منا بھی نہ سکوں
ڈال کر خاک مرے خوں پہ، قاتل نے کہا
کچھ یہ مہندی نہیں میری کہ چھپا بھی نہ سکوں
کوئی پوچھے تو محبت سے یہ کیا ہے انصاف
وہ مجھے دل سے بہلا دے میں بہلا بھی نہ سکوں
ہائے کیا سحر ہے یہ حسن کی مانگیں جو حسیں
دل بچا بھی نہ سکوں جان چھڑا بھی نہ سکوں
ایک نالے میں جہاں کو تہہ و بال کر دوں
کچھ تیرا دل یہ نہیں ہے کہ ہلا بھی نہ سکوں
.
کلام : امیر مینائی
Post a Comment