دیار خواب کو نکلوں گا سر اٹھا کر میں
کہ شاد رہتا ہوں رنج سفر اٹھا کر میں
چراغ جل نہ سکے گا جو اس کی آنکھوں میں
دھروں گا اس کو کسی طاق پر اٹھا کر میں
سنا ہے تخت مقدر سے ہاتھ آتا ہے
خجل ہوں راحت تیغ و سپر اٹھا کر میں
چلے جو سرو و سمن میں بھی ساتھ چل دوں گا
کھڑا رہوں گا نہ بار ثمر اٹھا کر میں
ترے بہشت میں دل لگ نہیں رہا میرا
کہ ساتھ لا نہیں پایا ہوں گھر اٹھا کر میں
الجھ رہا ہو اگر غیر کی نگاہوں سے
لپیٹ لیتا ہوں تار نظر اٹھا کر میں
الگ نہیں ہوں میں اپنی طرح کے لوگوں سے
پڑا ہوں زحمت دیوار و در اٹھا کر میں
نہیں سنوں گا نصیحت کسی سیانے کی
رہوں گا تہمت نوع بشر اٹھا کر میں
یقین کیسے نہیں آئے گا انہیں مجھ پر
وفا میں فرد ہوں خوف و خطر اٹھا کر میں
کہیں وصال کی صورت اگر دکھائی دی
نکل پڑوں گا نہ شمع سحر اٹھا کر میں
کسی پری کے تصور میں چوم لیتا ہوں
کسی گلاب کو بار دگر اٹھا کر میں
بہت ہیں چاہنے والے مرے جہاں بھر میں
گرفتہ دل نہیں بار ہنر اٹھا کر میں
مکان چھوڑ تو دوں اس حسیں کے کہنے پر
گلی میں لاؤں گا کیا کیا مگر اٹھا کر میں
مجھے وہ طیش دلاتے رہے اگر ساجدؔ
تو گوندھ دوں گا یہ سارا نگر اٹھا کر میں
غلام حسین ساجد
Post a Comment