گولین کے سیلاب متاثرین نے احتجاج کے طور پر چترال مستوج روڈ کئی گھنٹوں تک بند کیا۔ گولین کو سیلاب نے تباہ کیا مگر ابھی تک بحال کاری کا کام مکمل نہیں ہوا۔

گولین کے سیلاب متاثرین نے احتجاج کے طور پر چترال مستوج روڈ کئی گھنٹوں تک بند کیا۔ گولین کو سیلاب نے تباہ کیا مگر ابھی تک بحال کاری کا کام مکمل نہیں ہوا۔


چترال(گل حماد فاروقی) جنت نظیر وادی گولین میں 14 جولائی کو جو تباہ کن سیلاب آیا تھا جس کے نتیجے میں علاقے کی سڑکیں، پل، پائپ لائن وغیرہ سب کچھ سیلاب میں بہہ چکے تھے وہ ابھی تک بحال نہیں ہوسکے جس کے حلاف علاقے کے لوگوں نے  میں چترال مستوج روڈ پر احتجاج کیا اور سڑک کو کئی گھنٹوں کیلئے بند کیا۔ 
مظاہرین کا کہنا تھا کہ اس وادی میں پچھلے سال بھی سات جولائی کو سیلاب آیا تھا جس میں وزیر اعظم عمران خان کی بہن حلیمہ خان پھنس چکی تھی جس کیلئے پانچ مرتبہ ہیلی کاپٹر آیا مگر اس بار چودہ جولائی کو ایک بار پھر سیلاب آیا مگر ہیلی کاپٹر تو دور کی بات ہے کسی ذمہ دار شحص نے بھی ہمارا حال تک نہیں پوچھا۔
ان متاثرین کا کہنا ہے کہ یہاں 107 میگا واٹ کا پن بجلی گھر بھی بنا ہوا ہے اور بجلی گھر کی پانی کی تالاب تک سڑک واپڈا  کی ملکیت ہے  مگر اس میں نہایت ناقص کام ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ واپڈا کے اہلکار اور ٹھیکدار نے ملی بھگت سے یہاں گولین نالے پر نہایت ناقص پُل بنائے ہیں جن کے نہ آگے حفاظتی دیوار ہے نہ پیچھے اور ہی وجہ ہے کہ معمولی ریلے سے بھی یہ پل بہہ گئے مگر کسی نے واپڈا کے ذمہ دار یا ٹھیکدار کے حلاف کاروائی نہیں کی۔
مقامی لوگوں نے اپنی مددآپ کے تحت ان تباہ شدہ پُلوں کے دونوں جانب پائپ رکھے ہوئے اور ان پائپوں کے درمیان بوری میں مٹی بھر کر رکھا ہوا ہے ان دو پائپوں پر لوگ رسی کے  مدد سے گز رتے ہیں مگر جہاں رسی باندھنے کی جگہہ نہیں ہے وہاں انتہائی حطرہ ہے اور کسی بھی وقت کوئی جانی نقصان  ہوسکتا ہے۔ پچھلے سال بھی لوگ پائپ لائن بحال کرتے وقت تین افراد دریا میں گر کر جاں بحق ہوئے تھے جن میں ایک لاش ابھی تک نہیں ملی۔
ان متاثرین میں ولی الرحمان بھی شامل ہے ان کا کہنا ہے کہ  سیلاب آنے کا ہفتہ گز ر گیا مگر ابھی تک پیدل  جانے والوں کیلئے بھی انتظامیہ راستہ نہیں بنا سکے۔ ہم نے ڈپٹی کمشنر سے تین مطالبے کئے تھے مگر ابھی تک اس میں ایک مطالبہ بھی پورا نہیں ہوا۔
ایک اور متاثرہ شحص  رحمت وزیر خان نے بتایا کہ ہمارا علاقہ سیلاب کی وجہ سے تباہ ہوا مگر ابھی تک نہ راستہ بحال ہوا نہ پانی۔ بلکہ واپڈا کا ٹھیکدار محکمہ سے ملک کر کروڑوں روپے کھا رہاہے مگر وہ غلط جگہہ میں کام کررہا ہے ہم نے بارہا سمجھایا کہ جہاں سیلاب آیا ہے وہاں پہاڑی کاٹ کر سڑک کو کشادہ کرے مگر وہ مانتا نہیں ہے اور پچھلے سال سیلاب کی وجہ سے تباہ شدہ پل جو اس نے بنائے ہیں اس پر کروڑوں روپے لاگت آئی ہے مگر ان پلوں کے آگے پیچھے کوئی سائڈ وال نہیں تھی یہاں صرف مٹی بھرا ہوا تھا اور واپڈا کے کنسلٹنٹ نے بھی اس پر آنکھیں بند کی تھی شائد ان کا بھی مُٹی گرم کیا گیا تھا یہ پل ایک ہی ریلے میں تباہ ہوئے اور اب لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت دریا پر   پائپ رکھ ان کے اوپر گزرتے ہیں جن میں خواتین، بچے، ضعیف لوگ  اور مریض بھی شامل ہیں۔ 
ایک اور متاثرہ شحص صوبیدار رحمت نے بتایا کہ ہمارے گھر بار تباہ ہوئے، راستے حتم ہیں، ہم ایک تیلہ آٹا بھی کندھے پر اٹھاکر کئی کلومیٹر دور پیدل جانے پر مجبور ہیں مگر واپڈا والے ٹس سے مس نہیں ہوتے اور ابھی تک پیدل جانے کا سڑک بھی بحال نہیں کرسکے۔ لوگ ان پائپوں کے اوپر سے گزرتے ہیں اور وہ کسی بھی وقت دریا میں گر سکتے ہیں۔ 
گولین وادی کے اندر اس چھوٹے دریا پر لوگ ویکھے گئے کہ مقامی لوگ اپنی مدد آپ کے تحت دریا پر پائپ رکھ کر عارضی پل بنارہے تھے۔
مقامی لوگوں نے یہ بھی شکایت کی کہ یہاں گلوفGLOF 2 کے نام پر 2017 میں  UNDP کا ایک پراجیکٹ آیا ہے مگر وہ صرف اپنے ٹی اے ڈی اے بنانے کے سوا کچھ بھی نہیں کرتے اور کسی کو پتہ بھی نہں ہے کہ ان کیلئے ایک پراجیکٹ بھی آیا ہوا ہے وہ اپنا وقت پورا کرکے کاغذی کاروائی میں سب کچھ اچھا ہے دکھاکر چلے جائیں گے۔
ایک مقامی شحص نے ہمارے نمائندے کو بتایا کہ جب گولین بجلی گھر کورین  کمپنی بنارہے تھے تو ایک کورین انجنیر نے واپڈا والوں کو پیش کش کی کہ وہ نہایت کم خرچ پر یہاں پہاڑ  میں سرنگ بنا سکتا ہے جس سے پانی سرنگ کے اندر جائے گا اور راستہ محفوظ ہوگا مگر واپڈا والوں نے اپنا منظور نظر ٹھیکدار کو فائدہ پہنچانے کیلئے قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا مگر اس کی بات نہیں مانا جس پر وہ غیر ملکی انجنیر نہایت حیران ہوا کہ پاکستان کو اپنے ہی سرکاری ادارے کیسے لوٹ رہا ہے۔ 
ان متاثرہ لوگوں نے چیف جسٹس آف پاکستان، وزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعلےٰ  خیبر پحتون خواہ سے اپیل کی ہے کہ گولین میں بحال کاری کے مد میں جو کروڑوں روپے کاغذات میں خرچ ہوئے ہیں  اور جن اداروں نے اس وادی کے نام پر فنڈ کھایا  ہے ان کے حلاف جوڈیشل انکوائیری کرکے ان سے وہ فنڈ واپس لیا جائے اور اس علاقے کے تحفظ کیلئے مستقل بنیادوں پر منصوبہ بندی کی جائے۔ 
بعد میں ضلعی انتظامیہ کی یقین دہانی پر ان لوگوں نے اپنا احتجاج حتم کیا۔ ہمارے نمائندے نے واپڈا کے ریذنٹ انجنیر سے بھی ان کا موقف جاننے کی کوشش کی مگر اس میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔

Post a Comment

Previous Post Next Post