امکان یہی ہے کہ وہ امکان رہے گا ؛ مکمل شاعری لنک پر پڑھیں

امکان یہی ہے کہ وہ امکان رہے گا
یعنی یہ پریشان ، پریشان رہے گا
جس موڑ پہ ملنا ہے وہیں تک ہے یہ مشکل
آگے کا سفر ساتھ میں آسان رہے گا
دنیا سے نکلنا ہے تو ہے عشق ہی رستہ
پھر اپنی طرف تیرا کہاں دھیان رہے گا
ہر بار یہی سمجھے گا سمجھا تو کہانی
ہر بار مرے یار تُو حیران رہے گا
ہم نے تو محبت سے ہے بس اتنا کمایا
اب اور کوئی دل میں نہ ارمان رہے گا
کہنے کو کواڑوں پہ بہاروں کی ہے دستک
اندر کا بیابان ، بیابان رہے گا
کانٹوں سے سجا لو کہ یہ پھولوں سے سجا لو
گلدان تو گلدان ہے گلدان رہے گا
تم چاہے کہانی سے مرا نام مٹا دو
مٹ کر بھی مرا نام ہی عنوان رہے گا
رخصت کی گھڑی ہم کو یہ معلوم نہیں تھا
تا عمر کوئی دل میں ہی مہمان رہے گا
اس شخص سے اب میرا تعلق ہے بس اتنا
جب تک ہے مری سانس مری جان رہے گا
شاعر اتباف ابرک


Post a Comment

Previous Post Next Post