محبتیں جب شمار کرنا تو سازشیں بھی شمار کرنا
جو میرے حصے میں آئی ہیں وہ اذیتیں بھی شمار کرنا
جلائےرکھوں گی صبح تک میں تمھارے رستےمیں اپنی آنکھیں
مگر کہیں ضبط ٹوٹ جائے تو بارشیں بھی شمار کرنا
جو حرف لوحِ وفا پہ لکھے ہوئے ہیں ان کو بھی دیکھ لینا
جو رائیگاں ہو گئیں وہ ساری عبادتیں بھی شمار کرنا
یہ سردیوں کا اداس موسم کہ دھڑکنیں برف ہو گئ ہیں
جب ان کی یخ بستگی پرکھنا، تمازتیں بھی شمار کرنا
تم اپنی مجبوریوں کے قِصے ضرور لکھنا وضاحتوں سے
جو میری آنکھوں میں جَل بجھی ہیں، وہ خواہشیں بھی شمار کرنا
(نوشی گیلانی)
Post a Comment