ایک برس قبل دلی میں ایک طالبہ کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے واقعے کے بعد اب بھارت میں خواتین جنسی تشدد کے خلاف رپورٹ درج کرانے کی ہمت کر رہی ہیں۔ لیکن اب بھی کئی خواتین ایسی ہیں جو یا تو اجنبیوں یا اپنے ہی قریبی مردوں سے خوفزدہ ہیں۔
ریشماں کی پانچ بیٹیاں ہیں۔ وہ اب نہ چاہتے ہوئے بھی چھٹی مرتبہ حاملہ ہیں۔
اپنی دکھی داستان سناتے ہوئے ان کی آواز کانپ رہی تھی۔
’میں کئی سال تک خاموش رہی‘۔
’ میرا شوہر مجھ سے برا سلوک کرتا ہے کیونکہ میں نے صرف بیٹیوں کو جنم دیا۔ بری طرح پیٹا جانا میرے لیے ایک معمول بن گیا تھا۔ اسے بیٹا چاہئیے تھا۔‘
’ جب میں چھٹی مرتبہ حاملہ ہوئی تو اس نے کہا اگر اب کی بار بھی بیٹی ہوئی تو مجھے حمل گرانا ہوگا۔ میں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ ہمارا بہت جھگڑا ہوا۔‘
اس نے میرا پیٹ اور پیٹ کا نچلا حصہ جلانے کے لیے مجھ پر تیزاب پھینکا‘۔
ریشماں خود پر ہونے والے حملے کو دہراتے ہوئے رو دیں۔ ان کے زخموں کا علاج کرنے کے لیے ان کا آپریشن بھی ہوا۔ ان کا بچہ زندہ ہے تاہم وہ کافی کمزور ہو گئی ہیں۔
ریشماں کو حملے کے چار دن بعد طبی امداد مل سکی اور یہ بھی تب ممکن ہوا جب اس کے والد اسے دیکھنے گئے۔ وہ اب اپنے غریب والدین کے ساتھ کان پور میں رہتی ہیں جو دہلی سے پانچ سو کلو میٹر دور ہے۔
ریشماں کے والدین اپنی بیٹی کے برے حالاتِ زندگی سے تو واقف تھے لیکن وہ اپنے ہی داماد کے خلاف پولیس میں شکایت کرنے کے خیال سے ہی گھبراتے تھے۔ لیکن ریشماں کہتی ہیں کے آخرکار اب وہ اس کے ساتھ ہیں۔
تیزاب کا یہ حملہ ریشمان پر ان کے شوہر کے پندرہ سالہ تشدد کا خاتمہ ثابت ہوا۔ پینتیس سالہ ریشماں نے صحت یاب ہونے کے بعد فیصلہ کیا کہ وہ اخبارات میں ایک اور عورت کی موت کی خبر نہیں بنیں گی۔
انہوں نے اپنے شوہر کے خلاف پولیس میں رپورٹ درج کروائی۔ ان کا شوہر اب جیل میں ہے اور مقدمے کی سماعت کا انتظار کر رہا ہے۔ تاہم وہ اپنے خلاف لگے الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
بدلتا معاشرہ
گذشتہ دسمبر میں دہلی میں ایک طالبہ پر کیے جانے والے وحشیانہ حملے سے پورے بھارت میں غم و غصہ پھیل گیا تھا۔
اس واقعے کے بعد ملک میں صنفی تشدد کے شرح کے حوالے سے قومی سطح پر خود احتسابی کو ہوا ملی۔
اس واقعے کے بعد کئی عورتوں کی پولیس کے پاس جانے کے لیے حوصلہ افزائی ہوئی۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق دہلی میں رواں برس پندرہ اگست تک ایک ہزار چھتیس مقدمے درج کیے گئے ہیں۔ جبکہ سنہ دو ہزار بارہ میں اسی دورانیے میں چار سو تینتیس واقعات رپورٹ ہوئے۔
مقدمات کے سامنے آنے کے باوجود کئی دوسرے ممالک کی طرح ریپ کیسز کے ملزمان کے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق یہ شرح سنہ دو ہزار بارہ میں اکیس اعشاریہ ایک فیصد ہے جو گذشتہ برس سے کم ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ وہ حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے لیے انہوں نے شہر کی سڑکوں پر چار سو پولیس کی گاڑیاں تعینات کر دی ہیں۔ اس کے علاوہ پولیس میں خواتین اہلکاروں کی بھرتی کے لیے بھی دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
اوتار سنگھ راوت جو دہلی پولیس کے افسر ہیں کہتے ہیں کہ اہلکاروں کو خواتین کے ساتھ برتاؤ کی تربیت دی جاری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’پولیس اب پہلے سے زیادہ حساس ہو گئی ہے۔‘
انسانی حقوق کی ایک معروف کارکن رنجنا کماری کا کہنا ہے کہ دہلی ریپ کے بعد بھارت کے معاشرتی ڈھانچے میں تبدیلیاں آئی ہیں تاہم سڑکیں اب بھی خواتین کے لیے محفوظ نہیں۔
’ عورتیں ان تمام خطرات کے باوجود اپنی زندگی جاری رکھے ہوئے ہیں، وہ باہر آتی ہیں کام بھی کرتی ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ لیکن سب سے مایوس کن بات یہ ہے کہ جب واضح طور پر ایک عورت کے خلاف جرم ہو جاتا ہے تو حکومت اس کے احتساب کے لیے کچھ کرنے کے قابل نہیں ہے۔ ‘
’ سیاسی جماعتوں نے عورتوں کے تحفظ کو اپنے منشور کا حصہ بنایا ہے۔ جب میں نے چھوٹے شہروں کا سفر کیا تو دیکھا کہ وہاں لوگ اب عورتوں کے تحفظ پر بات کر رہے ہیں۔‘
کان پور کی ریشماں تشدد کے خلاف آواز اٹھانے کے اپنے مشکل فیصلے پر قائم رہنے کے لیے پر عزم ہیں۔
’ میں اسے جیل سے باہر نہیں آنے دوں گی۔ اس نے میری زندگی کو جہنم بنا دیا تھا۔ میں یہ قدم اٹھا کر بہت خوش ہوں۔‘
ان کا مزید کہنا ہے ’ میں جانتی ہوں میرے بولنے سے کئی دوسرے نوجوان لڑکیوں کا مستقبل محفوظ ہوجائے گا۔ ہم عورتیں ہیں اور ہمیں بھی وقار کے ساتھ جینے کا حق ہے۔ میں اپنا اور اپنی بیٹیوں کا خیال رکھوں گی۔‘
اپنے دوپٹے سے آنسو پونچھتے ہوئے انہوں نے کہا ’ موت ایک مرتبہ آتی ہے تو ہم کسی دوسرے کے ہاتھوں ہر روز کیوں مریں‘۔
Post a Comment