Be Zamir Hukumran aur ISP بے ضمیرحکمران اور اسلامی جمہوریہ پاکستان ۔ ایم عمیر دبیر

ملک پاکستان بنے 66سال کا عرصہ بیت گیا۔ پُلوں کے ینچے سے پانی بہہ رہا ہے اور بہتا جارہا ہے۔لیکن پانی کم کیوں ہورہاہے اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ، وقت گزرنے کے ساتھ مسائل حل ہونے کے بجائے پاکستان کو مزید مسائل اور سالمیت کے خطرات درپیش ہیں۔

تقسیم برصغیر سے پہلے پاکستان کے خلاف جن لوگوں نے اس کی تقسیم کی حمایت کی آج وہی لوگ دربدر ہیں اور جن لوگوں نے تحریک پاکستان کی مخالفت کی تھی گزشتہ 66سالوں سے افسوس اقتدار انہی جیسی سوچ کے لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ ماسوائے چند ایک کے جو پاکستان کی سالمیت کے بارے میں آگاہی دیتے ہیں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں اپنا سب کچھ پاکستان بنانے اور پاکستان بچانے پر قربان کرتے ہیں وہی لوگ آج اس ملک میں حکمرانی سے محروم ہیں نہ 
جانے کیوںاس سوال کا جواب بہت تلخ ہے لیکن جواب ہے ضرور !!


پاکستان بننے کے بعد سے اب تک کئی بار دشمن مختلف طریقوں سے پاکستان پر حملے کر چکا ہے۔ اور دوسری جانب ہمارے حکمران صرف حکمرانی کے مزے لینے اور اپنی آنے والی نسلوں کی بقاء اور خوشحالی کے فیصلے کرنے میں مصروف ہیں ۔ لاکھوں افراد کی جانوں کا نظرانہ پیش کرنے کے بعد بننے والا پاکستان آج نیلام ہونے کی جانب گامزن ہے۔ ہر دور کے اقتدار میں حکمرانوں نے اپنی بساط کے مطابق ملک کو نیلام کرنے کے فیصلے کئے بیٹھے ہیں۔

حکمرانی کرنے والے یہ خاندان ، سیاستدان، جاگیردار اور وڈیرے اپنے ووٹرز کا درد سمجھنے سے قاصر ہیں۔ انہیں اس درد کا اندازہ اس وجہ سے بھی نہیں ہے کیونکہ یہ تمام افراد بذات خود منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے ہیں انہیں کسی چیز سے کوئی سروکار نہیں ہے۔چاہیے ملک میں کوئی انصاف نہ ملنے پر خودسوزی کرے،چاہے کسی طالب علم کو گولی مار دی جائے، مساجد اور دیگر عباتگاہوں کو بموں سے اڑا دیا جائے ، عدالتوں میں حملے یا پھر پولیو پلانے والے نہتے لوگوں کا قتل عام کیا جائے ۔ ملک بھر میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کو بہتر بنانے کے بجائے ہمارا حکمران طبقہ صرف اپنی ذات کے حصار میں گم رہتا ہے۔

مجھے آج تک یہ سمجھ نہیں آیا کہ آخر اپنے بچوں کے مستقبل کو غریب کے درد اور ٹیکسوں کی رقم سے سنوانے والے بے ضرر حکمران آخر چاہتے کیا ہیں۔ چاہیے پنجاب یوتھ فیسٹول کے دوران مریم نواز کو لگنے والی چوٹ ہو ، بلاول کا معمولی بخار ہو یا پھر بختاور کی کھانسی، ان کا علاج دیار غیر میں ہوتا ہے۔ ہمارے حکمران اپنے بچوں کے علاج معالجے ، تعلیم اور رہن سہن کے لئے غیر ممالک میں موجود سہولیات کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اسکے برعکس ان کے ووٹرز کے لئے اسپتالوں میں دوائیوں کی قلت، نرسوں اور اساتذہ کی ہڑتالیں کے سوا کچھ میسر نہیں، لیکن پھر بھی بے وقوف عوام ایسے لوگوں کو اپنے ووٹوں کے زریعے حکمرانی پر لاتی ہے ۔ پانچ سال گزارنے کے بعد جب انتخابات قریب ہوتے ہیں پھر سیاستدانوں کو عوام سے کئے وعدے اور عہد یاد آجاتے ہیں اور وہ ہر بار کی طرح عوام کو بھرپور یقین دلاتے ہیں کہ اس دفعہ وہ ان کی امیدوں پر پورا اتریں گے۔اور بچاری غریب عوام ان کے جھوٹے وعدوں ہر آنکھ بند کر کے یقین کرلیتی ہے ۔ اسی طرح جمہوری خاندانوں نے تقریبا 30سال کا عرصہ گزار دیا۔

صحرائے تھر میں بلکتے لوگ ہوں یا چولستان کے بھوکے غریب عوام، ان کے مسائل کو حل کرنے کے لئے بھی سیاست سے کام لیا جاتا ہے۔ امداد کے بڑے بڑے وعدے کئے جاتے ہیں ۔ امداد دینے کے دوران بھر پور انداز میں فوٹو اور ویڈیو سیشن کروایا جاتا ہے۔اور اعلی حکمران کا استقبال مرغ مسلم سے اس کیا جاتا ہے ۔ اس دوران اگر میڈیا چینل اور اخباری رپوٹرز نہ پہنچ پائیں یا پھر پہنچنے میں تاخیر ہو تو ان کے انتظار تک امداد کی تقسیم تک روک دی جاتی ہے۔

دنیا کا ہر مذہب حقوق العباد کو ادا کرنے پر زور دیتا ہے۔ اسلام میں بھی حقوق العباد ادا کرنے کے حوالے سے بہت سخت تاکید کی گئی ہے اور حقوق نہ ادا کرنے پر کڑے عذاب کی وعیدیں بھی سُنائی گئی ہیں۔ اسی طرح ریا کاری ، مکر وفریب سے بھی رکنے کا بار بار اشارہ دیا گیا ہے ۔ لیکن ہمار ے حکمراں نہ جانے کیوں بغیر ریا کاری اور مکروفریب کے کوئی کام کر ہی نہیں پاتے۔

اللہ اُن قوموں کی حالت نہیں بدلتا جن قوموں کو اپنی حالت بدلنے کا خود سے خیال نہ ہو ۔ ان تمام مسائل کا حل خود ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہے۔ لیکن ہم نے کبھی بھی حکمرانی کے لئے اپنے درمیاں سے قیادت کو متعارف نہیں کروایا جو ہمارے درد کو سمجھے اور مسائل کو حل کرنے کے ساتھ ساتھ داد رسی ہماری کر سکے۔ اگر ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کا مستقبل روشن کرنا ہے تو آج یہ فیصلہ کرنا ہی ہوگا کہ غریب اور متوسط طبقے کے پڑھے لکھے ، باشعور اور محب وطن نوجوانوں کو آگے لانا ہوگا اور ملک کی بھاگ دوڑ ان کے ہاتھوں میں دینا ہوگی۔ وگرنہ حکمران کبھی انکم سپورٹ پروگرام اور کبھی لیپ ٹاپ کی تقسیم جیسے پروگراموں کے جھانسوں سے عوام کو بے وقوف بنتے رہیں گے اور ہماری آنے والی نسلیں روشن مستقبل کی امید پر تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچ جائیں گی جہاں واپسی کا کوئی راستی ممکن نہ ہوگا، اب فیصلہ ہمیں کرنے ہوگا کہ ہم ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل روشن دیکھنا چاہتے ہیں یا انہیں تاریک راہوں میں دھکیلنا چاہتے ہیں؟

یہ مضمون ایکسپریس بلاگ سے شائع کیا جارہا ہے۔۔۔ جملہ حقوق ایکسپریس میڈیا

Post a Comment

Previous Post Next Post