پانی آنکھ میں بھر کر لایا جا سکتا ہے
اب بھی جلتا شہر بچایا جا سکتا ہے
ایک محبت اور وہ بھی ناکام محبت
لیکن اس سے کام چلایا جا سکتا ہے
دل پر پانی پینے آتی ہیں امیدیں
اس چشمے میں زہر ملایا جا سکتا ہے
مجھ بے نام سے پوچھتے ہیں فرہاد و مجنوں
عشق میں کتنا نام کمایا جا سکتا ہے
یہ ماہتاب یہ رات کی پیشانی کا گھاؤ
ایسا زخم تو دل پہ کھایا جا سکتا ہے
پھٹا پرانا خواب ہے میرا پھر بھی تابش
اس میں اپنا آپ چھپایا جا سکتا ہے
عباس تابش
Post a Comment