یہ اتفاق رائے تو ہو گیا کہ وزیر اعظم کو مستعفی نہیں ہونا چاہئے۔قومی اسمبلی نے کہہ دیا ، سینیٹ نے کہہ دیا، تمام آئین پسند اور جمہوریت پسند سیاسی ا ور مذہبی جماعتوںنے کہہ دیا اور اب اس پر اصرار کر نے کے لئے جوابی دھرنوں کا سلسلہ شروع ہو گیا، ن لیگ کے جلوس شہر شہر نکل رہے ہیں، یہ ان کا بھی آئینی حق ہے جیسے قادری ا ور عمران کا حق جتلایا جاتا ہے۔امریکہ نے بھی کہہ دیا کہ نواز شریف منتخب وزیر اعظم ہیں ، انہیں دھونس سے نہیں نکالا جا سکتا اور تو اور بھارت میں بھی اس حق کے لئے آواز اٹھی۔
چلئے استعفی نہ دیں، بالکل نہ دیں، نہ وزیر اعظم نواز شریف مستعفی ہوں، نہ وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف مستعفی ہوں، کئی لوگ تو کہہ دیتے ہیں کہ شہباز شریف کو تو چلے جانا چاہئے۔ مگر اصول کی بات ہے کہ انہیں ہر گز استعفی نہیں دینا چاہئے، ملک میں عدالتیںموجود ہیں، فیصلہ کر دیںجو بھی قانون اور آئین کے مطابق ہو، الزام ثابت ہو جائے تو پھر وہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ الزا م ثابت ہو گیا تو خود استعفی دوں گا ، ایک لمحے کی تاخیر نہیںکروں گا مگر حضرت عمر فاروق ؓ خلیفہ دوم اپنی صفائی کے لئے بطور خلیفہ وقت ،عدالت میں پیش ہوئے، ان پر کسی نے شرط عائد نہیں کی تھی کہ پہلے وہ مستعفی ہوں یا چھٹی پرجائیں ، پھر ان کے مقدمے کی سماعت ہو، تاریخ میں یہ اعتراض آج تک کسی نے نہیں کیا تو شہبازشریف کیوں اور کس لئے ، کس روائت کے تحت مستعفی ہوں اور وہ بھی محض ایک الزام پر جسے بار بار دہرایا جا رہا ہے لیکن بار بار دہرانے سے وہ حقیقت اور صداقت میں تبدیل نہیں ہو سکتا، عدالتی فیصلے کی جگہ نہیں لے سکتا۔اس لئے شہباز شریف کے استعفے کی نوبت نہیں آنی چاہئے، اگر انہوںنے استعفی دیا تو میں اسے چھین کر پھاڑ دوں گا۔ابھی کل کی بات ہے دنیا کی طاقتور تریں جمہوریت کاصدر بل کلنٹن مواخذے کا شکار ہوا، اس نے منصب صدارت پر فائز رہتے ہوئے مواخذے کی تحریک کو ناکام بنایا، امریکہ میں ایک ا ٓواز نہیں اٹھی کہ مواخذے کی کاروائی سے پہلے کلنٹن مستعفی ہوں یا چھٹی پر چلے جائیں ، یہ تو ہماری سفلی خواہشات ہیں ، اور ان خواہشات کی پیروی کی رسم ایک بارچل نکلی تو پھر کوئی شخص کسی منصب پر فائز نہیں رہ سکے گا، ہر دفتر کے اندر چند قادری یا چند عمران اپنے ساتھی کارکن یا اپنے افسر کے خلاف دھونس جمائیں گے اورا سے گھر جانے پر مجبور کر دیں گے، میںپھر دہراتا ہوں کہ یہ عمل چل نکلا تو پھر ریاست کا ڈھانچہ بکھر کر رہ جائے گا۔کوئی ایٹم بم بھی اس شکست وریخت کو نہیں روک سکے گا۔
یہ بات تو میری حد تک طے ہو گئی بلکہ پوری قوم کی حد تک طے ہو گئی تو پھر ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے جمہوری منتخب حکمرانوںنے جس حد تک غیر جمہوری طرز عمل اختیار کر رکھا ہے بلکہ چار قدم آگے بڑھ کر بادشاہت اور شہنشاہیت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے،یہ رویہ انہیں ہر گز زیب نہیں دیتا، اسلامی اصولوں کے تحت بھی اور آئین اور جمہوری اصولوں کی رو سے بھی انہیں بادشاہت کا حق کسی نے نہیں دیا،اس لئے وہ براہ کرم جمہوریت اور آئین پر رحم فرمائیں اور اپنی شاہانہ روش ترک کر دیں،انہیں تو بادشاہ کہلوانے کا حق اس قدر بھی نہیں ،جتنا آخری مغلیہ تاجدار بہادر شاہ ظفر کو حاصل تھا۔ شہنشاہیت کے خاتمے کے لئے پہلے قدم کے طور پر مریم صفدر کو ایک سو ارب کے قومی اثاثے کی بندر بانٹ کے منصب سے الگ کیا جائے، دوسرے قدم کے طور پر حمزہ شہباز کو پنجاب کے غیر اعلانیہ چیف منسٹری کے عہدے سے ہٹا دیا جائے۔پنجاب انتظامیہ کو ہدائت جاری کر دی جائے کہ کوئی ریاستی عہدے دار اس نوجوان کی میٹنگ میںنہیں جائے گا، نہ ان کے کسی حکم کو ماننے کا مکلف ہو گا۔ محترمہ مریم نواز اپنا گھر سنبھالیں، اور حمزہ شہباز قومی اسمبلی میں جائیں اور سیاسی تربیت حاصل کریں، قانون سازی کا درس لیں۔اور بادشاہت کے خاتمے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ شہباز شریف صرف پنجاب کی چیف منسٹری کریں، ملک کی وزارت عظمی میں ،منہ نہ ماریں۔
وزیر اعظم اور وزیر اعلی کا جمہوری فرض یہ ہے کہ وہ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی میں اپنی حاضری باقاعدہ بنائیں۔اپنی اپنی کابینہ مکمل کریں اور کابینہ کے ہر رکن کو بااختیار بنائیں۔یہ نہیں ہونا چاہئے کہ کوئی وزیر خارجہ نہیں لیکن یہ فریضہ بھی شہباز شریف نے سنبھال رکھا ہے، وہ وزیر پانی و بجلی کے طور پر بھی چین اور جرمنی کے سرمایہ کاروں سے مذاکرات کرتے پھرتے ہیں، کس برتے پر، یہ کام متعلقہ وزرا کے ہیں ۔اگلا اقدام یہ ہونا چاہئے کہ اقربا پروری کا خاتمہ کیا جائے۔ ہر منصب صرف اور صرف اہلیت اور صلاحیت کی بنا پر اور شفاف طریقے سے ہی کسی کو عطا کیا جائے، خاندانی قربت یا دوستی کو معیار نہ بنایا جائے۔ اس معیار پر جتنی بھی تقرریاں ہو چکی ہیں ، انہیں بیک جنبش قلم ختم کیا جائے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ریاستی ملازمین کے لئے وفاداری کی شرط نہ رکھی جائے بلکہ انہیں آئین، قانون اور مسلمہ اصولوں کے مطابق چلنے کی مکمل آزادی ہونی چاہئے۔
قادری صاحب کی بات ٹھیک ہے کہ کفن ایک ہے، لیکن کیا ہی بہتر ہوتا کہ وہ صرف ایک مطالبہ رکھتے کہ ا س کفن میں بادشاہت ا ور شہنشاہیت کو لپیٹ کر ہمیشہ کے لئے قبر میں دفن کر دیا جائے گا، انہیں کہنا چاہئے تھا کہ ملک میں صرف جمہوریت چلے گی، آئین کو بالادستی ہو گی اور آئین ا ور جمہوریت کے تحت منتخب وزیر اعظم سے استعفی نہیںمانگاجائے گا ،صرف شہنشاہیت ا ور بادشاہت سے استعفی لیا جائے گا۔جمہوریت اور اسلامی اصولوں کی رو سے ریاست کا حکمران عوام کا خادم ہوتا ہے ا ور آئندہ سے ا سے حقیقی خادم بن کر ہی حکومت کرنا ہو گی، خادم ہونے کے اشتھاروں کے بل پر حکومت کرنے کاحق نہیں دیا جائے گا۔اور یہ جمہوری مزاج صرف وزیر اعظم اور وزیر اعلی کے لئے ہی ضروری نہیںبلکہ ان کے وزرا اور عوامی نمائندوں کے لئے بھی ضروری ہو گا۔اور درجہ بدرجہ ،ہر سرکاری اہل کار کو بھی عوامی اور جمہوری رویہ اختیار کرنا ہو گا۔اگر یہ نہیں ہو پاتا تو پھر کیسا انقلاب ا ور کیسی تبدیلی، ایک بادشاہ کو نکال کر دوسرے آکڑخاں یا تیسرے علامہ دھمکی کو تخت پر متمکن کرنا گھاٹے کا نہیں ، سراسربے وقوفی اور حماقت کا سودا ہو گا جو کم ا ز کم مجھے تو منظور نہیں۔پھر یہی بادشاہ منظور ہیں۔
عمران کا اصل مسئلہ شادی کا تھا، آزادی کا نہیں تھا، اب شادی کے لئے اسے کئی پیش کشیں ہو چکی ہیں، کسی ایک کوقبول فرمائیں اور ہنی مون پر نکل جائیں، قوم کی جان چھوڑیں ، روز روز سر نہ کھائیں ، نئی زوجہ محترمہ کے ہاتھ کی بنی ہوئی دیسی مرغی اور ماش کی دال جیسے نت نئے پکوان کھائیں۔موج اور میلہ اڑائیں۔
موجودہ حکومت کو زرداری حکومت کی طرح پانچ سال کا مینڈیٹ ملا ہے۔یہ ٹرم ہرحال میںپوری ہونی چاہئے، کو ن ہوتا ہے یہ آئینی حق چھیننے والا۔ کہاں سے آگئے نئے سلطانہ ڈاکو۔
بشکریہ ( نوائے وقت )
Post a Comment