Qaumen Red zone ki muhtaj nahi hotin - by Nazia Mustafa - قومیں ریڈ زون یا کیلان جایہ کی محتاج نہیں ہوتیں!



یہ مئی 2013ء کا دوسرا ہفتہ تھا، اس مہینے میں ایک ایسا واقعہ ہو چکا تھا جس کی وجہ سے لوگوں کی بڑی تعداد دکھی تھی، سب لوگ غمگین تھے، سب پریشان تھے، سب ماتم کناں تھے، سب کی پلکیں یوں بھیگ رہی تھیں جیسے اُن سے اُن کی کوئی قیمتی متاع چھین لی گئی ہو، جیسے وہ یتیم ہو گئے ہوں یا جیسے ان کا کوئی بہت قریبی عزیز ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دنیا چھوڑ گیا ہو۔ یہ سب لوگ اُٹھے ہوئے ہاتھوں کی دو انگلیوں سے فتح کا نشان بناتے ہوئے دارالحکومت کی جانب اُدھر رواں دواں تھے جہاں ان کے قائد نے انہیں بروقت پہنچنے کی ”کال“ دی تھی۔ سیاہ ماتمی لباس پہنے یہ سارے لوگ دراصل مئی 2013ء میں ہونے والے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاجاً اکٹھے ہو رہے تھے، ان لوگوں میں شامل ہر شخص سمجھتا تھا کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے، عام انتخابات میں ان لوگوں نے حکومت کے خلاف بڑی زبردست انتخابی مہم چلائی تھی، یہ سارے لوگ ”انصاف پارٹی“ سے تعلق رکھتے تھے، یہ لوگ معاشرے میں انصاف کیلئے بڑی زبردست تحریک بھی چلا رہے تھے، یہی وجہ ہے کہ عوام نے بھی انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا تھا، انتخابی مہم کے دوران ان کے جلسے بھی بڑے شاندار ہوئے تھے، جنہیں دیکھ کر بڑے بڑے سیاستدان ان کی جماعت میں شامل ہو گئے تھے۔ عوام میں بے پناہ مقبولیت دیکھ کر انہیں سترہ برس بعد پہلی مرتبہ اپنے قائد کے وزیر اعظم بننے کا یقین ہو چلا تھا۔

لیکن پولنگ ختم ہونے کے بعد جیسے ہی انتخابی نتائج کا اعلان ہونا شروع ہوا توان کے ارمانوں پر اوس پڑنے لگی، تمام حلقوں کے نتائج سامنے آنے پر انصاف پارٹی الیکشن ہار گئی تھی اور مخالفین نے واضح اکثریت حاصل کر لی تھی۔ ”انصافیوں“ کے قائد نے انتخابی نتائج کو دھاندلی قرار دے کر اس کے خلاف ملین مارچ کا اعلان کیا تو ”انصافی“ بھی لنگوٹ کس کر میدان میں نکل آئے ۔ یہ سب لوگ جب اپنے قائد کی کہی ہوئی جگہ پر اکٹھے ہو چکے تو پنڈال میں تل دھرنے کی جگہ باقی نہ بچی تھی۔ انصافیوں نے اس اجتماع کو انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر قرار دیا، لیکن غیر جانبدار مبصرین کے مطابق بھی ان لوگوں کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار سے کم نہ تھی، البتہ بی بی سی نے یہی تعداد چالیس ہزار کے لگ بھگ بتائی۔ یہ لوگ لاکھوں میں تھے یا ہزاروں میں، لیکن یہ تمام لوگ مکمل متحد نظر آتے تھے، ہر شخص نے دکھ اور احتجاج کے اظہار کیلئے سیاہ ماتمی لباس زیب تن کر رکھا تھا، سارا پنڈال سیاہ ماتمی ملبوسات اور سیاہ پرچموں کی وجہ سے کالا کالا نظر آ رہا تھا۔

کنٹینر پر بنے اسٹیج پر ان لوگوں کا قائد نمودار ہوا تو پرجوش مجمع خطاب سننے کیلئے خاموش ہو گیا۔ ادھیڑ عمر لمبے تڑنگے اور پتلے قائد نے ہاتھ میں مائیک پکڑا تو نعرے بازی تھم سی گئی ”میرے چیتو! تم نے انتخابات میں مجھ پر جس اعتماد کا اظہار کیا، میں اس پر تمہارا شکرگزار ہوں، مجھے انتخابات ہارنے کا کوئی دکھ نہ ہوتا اگر واقعی میں انتخابات ہارا ہوتا تو میں یہ شکست قبول کر لیتا، لیکن حقیقت میں میرے ساتھ نہیں بلکہ آپ کے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے، آپ نے جو مینڈیٹ ہمیں دیا، وہ چرا لیا گیا، انتخابات میں جعلی ووٹ ڈالے گئے، بیرون ملک مقیم افراد کو ووٹ ڈالنے میں رکاوٹیں ڈالی گئیں، ناقص سیاہی استعمال کی گئی، تیس سے زائد حلقوں میں انتخابات کرانے والوں نے پنکچر لگائے، جس کی مدد سے ہمارا مینڈیٹ چرایا گیا، ہمیں اپنے ساتھ ہونے والی اس دھاندلی اور زیادتی پر انصاف چاہیے“۔ جواب میں مجمع سے گلے پھاڑنے والے نعرے بلند ہوئے”نو نجیب نو، گو نجیب گو“۔ جی ہاں! انتخابی دھاندلی کے خلاف یہ ملین مارچ کوئی اسلام آباد کے ریڈ زون میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف نہیں ہو رہا تھا، بلکہ یہ مظاہرہ ملیشیا میں گزشتہ برس 5 مئی کو ہونے والے انتخابات جیتنے والی نجیب رزاق کی حکومت کے خلاف ہو رہا تھا اور یہ احتجاج ریکارڈ کرانے والے پاکستان تحریک انصاف کے کارکن نہ تھے، بلکہ یہ ملیشیا کے اپوزیشن لیڈر انور ابراہیم کی جماعت ”عوامی انصاف پارٹی“ کے کارکن تھے۔

اس احتجاج کا اصل حسن سیاسی جماعتوں کا وہ رویہ تھاجس میں کسی نے عوام کو تکلیف سے دو چار کرنے کا نہیں سوچا اور کوئی عوام کے اعصاب شل اور قویٰ مضمحل کرنے کا خیال بھی دل میں نہیں لایا۔ جب احتجاج کیلئے مقام متعین کرنے کا موقع آیا تو اس مقصد کیلئے کوالالمپور شہر کا انتخاب بالکل نہیں کیا گیا، بلکہ اس مقصد کیلئے نگاہ انتخاب دارالحکومت سے بہت دور جا کر ٹھہری ۔ پیٹالنگ جایہ ملیشیا کا ایک خوبصورت قصبہ ہے، یہ کوالالمپور سے بائیس منٹ کی مسافت اور ساڑھے چودہ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع خوبصورت شہر ہے۔ پیٹالنگ جایہ کا مضافاتی قصبہ کیلان جایہ خوبصورتی میں اس سارے علاقے کی جان سمجھا جاتا ہے۔ یہ علاقہ اپنے تفریحی مقامات کی وجہ سے بھی مشہور ہے، سیاحت کیلئے ملیشیا جانے والے کیلان جایہ کی مشہور اور تاریخی جھیل دیکھنے ضرور جاتے ہیں، جس میں تیرتی رنگ برنگی مچھلیاں سیاحوں پر سحر طاری کر دیتی ہیں۔ اسی قصبے میں مشہور ”کیلان جایہ فٹ بال اسٹیڈیم“ بھی ہے۔ یہ اسٹیڈیم 1998ء کی دولت مشترکہ کھیلوں کیلئے تعمیر کیا گیا، دولت مشترکہ کی کھیلوں کے بعد یہ اسٹیڈیم مقامی کھیلوں کیلئے مخصوص ہو کر تاریخ کے اوراق میں گم ہونے کو تھا کہ گزشتہ برس 8 مئی کو ایک مرتبہ پھر عالمی میڈیا میں یہ اسٹیڈیم شہہ سرخیوں کی زینت بن گیا۔ اس کی وجہ انور ابراہیم کی جماعت ”عوامی انصاف پارٹی“ کے کارکنوں کا انتخابی دھاندلیوں کے خلاف یہ مظاہرہ ہی تھا۔ عوامی انصاف پارٹی نے اپنے مظاہرے کیلئے دارالحکومت کی بجائے اسی کیلان جایہ اسٹیڈیم کا انتخاب کیا تھا۔

قارئین کرام!! پاکستان کی تحریک انصاف اور ملیشیا کی عوامی انصاف پارٹی دونوں کا دعویٰ ہے کہ انتخابات میں ان کا مینڈیٹ چرایا گیا، لیکن انصاف حاصل کرنے کیلئے دونوں کے رویوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ایک نے انصاف حاصل کرنے کیلئے وفاقی دارالحکومت کو مفلوج کر کے عوام کو تکلیف میں مبتلا کر رکھا ہے جبکہ دوسری نے ایک فٹ بال اسٹیڈیم کے اندر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا اور اپنے شہریوں کے سکون کا بھی خیال رکھا۔ ایک جماعت کے احتجاج اور رویے کی پوری دنیا میں تحسین ہوئی جبکہ دوسری جماعت اپنے خلاف عالمی میڈیا کی کوئی خبر پڑھنا ہی نہیں چاہتی۔ ایک جماعت مسلسل شہر اقتدار پر قبضہ جمائے ہوئے ہے اور کسی ایکشن کی صورت پولیس چیف کو پنچ مارنے کی دھمکی دیتی جبکہ دوسری جماعت اپنے پولیس چیف اسماعیل عمر کی جانب سے اجتماع کو غیر قانونی قرار دیے جانے پر چند گھنٹوں میں کیلان جایہ اسٹیڈیم کو خالی کر کے گھروں کو روانہ ہو گئی۔ اگر اپنے عوام کو تکلیف نہ پہنچانے کے باوجود ایک غیر اخلاقی اسکینڈل کی وجہ سے انور ابراہیم آج کل جیل میں ہے تو عوام کو اذیت میں مبتلا کرنے والے بھلا وزیراعظم ہاو¿س کیسے پہنچ سکتے ہیں؟ ہم کب سمجھیں گے کہ قسمت بدلنے کیلئے ملکی قیادت کے رویے ہی اہم ہوتے ہیں، قومیں ریڈ زون یا کلیان جایہ کی محتاج نہیں ہوتیں!

بہ شکریہ روزنامہ ’’نوائے وقت‘

Post a Comment

Previous Post Next Post