ہر لمحہ ایک اور زمانے کی دُھن میں ہُوں
آیا ہوں جب سے مَیں کہیں جانے کی دُھن میں ہُوں
افسُردگی کا نام نہ دو دوستو اِسے
میں دوسرا چراغ جلانے کی دُھن میں ہُوں
تھک کر گِرا ہوں اَور نہ بیٹھا ہوں ہار کے
مَیں اپنا بَوجھ آپ اُٹھانے کی دُھن میں ہُوں
چاہے کوئی خزاں زدہ اُس پار ہو نہ ہو
دریا میں چند پھول بہانے کی دُھن میں ہُوں
میرے سوا تو کوئی نہیں میرے آس پاس
جانے کِسے مَیں چھوڑ کے جانے کی دُھن میں ہُوں
زندگی حادثوں کی دنیا میں
ReplyDeleteراہ بھولی ہوئی حسینہ ہے
Post a Comment