سپریم کورٹ نے سابق چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی دستخط کردہ ایک ا ہم دفتری دستاویز کا معاملہ کھلی عدالت میں پیش کرنے کاحکم دے دیا ہے۔
مذکورہ دستاویز میں جسٹس (ر) افتخار چوہدری نے ان تمام افراد کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کاحکم دیاتھا جوان کے بیٹے ڈاکٹر ارسلان کے بارے میں اہم معلومات منظرعام پرلائے۔ یادرہے کہ سابق چیف جسٹس اپنے بیٹے اورملک ریاض حسین کے مابین مالی تنازعے کی سماعت سے الگ ہوگئے تھے اور بعدازاں مذکورہ مقدمہ جسٹس جوادایس خواجہ اورجسٹس خلجی عارف حسین نے سناتھا لیکن بظاہر علیحدگی کے باوجودسابق چیف جسٹس نے 26جولائی 2012 کو ڈاکٹر ارسلان کے مبینہ تحفظ کے لیے توہین عدالت کاایک نیا مقدمہ رجسٹرکرنے کاحکم دیا اور اصرار کیاکہ یہ مقدمہ اسی روزمذکورہ بالا 2رکنی بینچ کے روبرولگایا جائے جوان دنوں ملک ریاض اورارسلان افتخارکی دائرکردہ نظرثانی کی درخواستوں کی سماعت میں مصروف تھا۔
3 صفحات پر مشتمل عدالت کی ایڈمن برانچ کی دستاویز 25جولائی کو تیار کی گئی اور اگلے روزسابق چیف جسٹس نے تمام ذمے داروں کے خلاف فوری کارروائی کا حکم جاری کردیا۔ بعدازاں نومبر 2012 میںمذکورہ دستاویز کی مصدقہ نقل کے حصول کے لیے ایک آئینی درخواست دائر کی گئی جس پر رجسٹرار نے اعتراضات لگا دیے کہ کوئی شخص کسی آفس نوٹ کی مصدقہ نقل طلب نہیں کرسکتا، نہ ہی دستاویزکسی قانونی طریقے سے حاصل کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ آئینی درخواست آرٹیکل 19A میں دیے گئے معلومات تک رسائی کے بنیادی حق کے حصول کے لیے دائرکی گئی تھی البتہ سابق چیف جسٹس کے باعث عدالت کے دفتر نے اعتراضات کے خلاف اپیل کورجسٹر کرنے سے انکار کردیا اوراپیل کنندہ کے جوابات کواسکینڈل قراردیا۔ اس ماہ کے اوائل میں سپریم کورٹ نے رجسٹرارکے اعتراضات کویکسر مسترد کردیا۔ چیمبرمیں سماعت کے دوران جسٹس انورظہیر جمالی نے اپیل کنندہ کووہ نکات پڑھنے کی ہدایت کی جنھیں اسکینڈل سے تشبیہہ دی گئی۔ اپیل کنندہ نے وہ جملے بھی پڑھے جس میں چیف جسٹس کے بیٹے کاایک فریق مقدمہ سے بھاری رقم بٹورنے کا ذکر تھا اور جسے تحفظ دینے کے لیے موصوف نے توہین عدالت کااضافی مقدمہ دائرکرنے کا حکم جاری کیا۔
Post a Comment