پاکستان ماضی کا ترکی یا حالیہ سعودی عرب ۔ ۔ ۔ ۔
اکیسویں آئینی ترمیم کا اصل ہدف مگر نشانہ کوئی اور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کسی ایک م
کتبہ فکر کو نشانہ بنانے کے بجائے اصل مسائل پر توجہ دی جائے
تحریر :۔محمد احمد ترازی
ترکی میں سلطنت عثمانیہ کا قیام 1299ءمیں عمل میں آیا،لیکن خلافت کے قیام کا باقاعدہ اعلان 1453ءمیں سلطان محمد دوم نے قسطنطنیہ کی فتح کے بعد کیا،قسطنطنیہ کی فتح نے خلافت عثمانیہ کی سرحدیں براعظم ایشیاءسے نکال کر یورپ تک پھیلادیں،بعد میں باقی ماندہ علاقے بھی بتدریج خلافت عثمانیہ کی عملداری میں آ گئے اور 1517ءمیں سلطان سلیم کے دور میں مصر کی فتح نے خلافت عثمانیہ کی سرحدیں افریقہ تک پھیلادیں۔مورخین کے مطابق 1683ءمیں یورپ کے شہر ویانا کے محاصرے نے سلطنت عثمانیہ کے زوال کی بنیاد رکھی،وہ علاقے جو عثمانی ترکوں نے ساڑھے تین سو سال کے عرصے میں فتح کئے تھے،ایک ایک کرکے اگلے دو سو سالوں میں اُن سے چھن لیے گئے اور کم وبیش پونے چھ سو سال قائم رہنے والی سلطنت عثمانیہ کا مکمل خاتمہ 1923ءمیں مصطفی کمال پاشا نے جدید ترکی کی بنیاد رکھ کر کردیا۔
مصطفی کمال پاشا ایک سیکولر خیالات کا حامل فرد تھا،اُس نے ترکی کو سیکولر ملک بنانے کیلئے 3مارچ 1923ءکو ایک بل اسمبلی میں پیش کیا،جس کا مقصد ترکی میں سیکولر ازم ، ترک قومیت اور مغربی جمہوریت کی ترویج واشاعت کے ساتھ خلافت عثمانیہ کا خاتمہ و بے دخلی اور عثمانی دور کے مذہبی اثرات کو زائل کرکے مذہبی تعلیم اور تمام مذہبی سرگرمیوں کو حکومتی کنٹرول میں لانا تھا،اِس بل کی منظوری نے ریاست اور مذہب کو جدا کرکے سیکولر ترکی کی بنیاد رکھی۔اِس بل کے اثرات نے سیاست،ثقافت اور تعلیم سمیت زندگی کے تمام شعبہ جات میں مذہب اور مذہبی شخصیات کے اثر کو زائل کرنا شروع کردیا اور یکساں نظام تعلیم کے نام پر ملک بھر میں قائم دینی مدارس پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی،قالَ قالَ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صدائیں بلند کرنے والے دینی ادارے اور مدارس گھوڑوں کے اصطبل اور مارکیٹوں میں تبدیل کردیئے گئے،صوفیوں اور درویشوں کے آستانے بند کر دیئے گئے،جبکہ ہجری کیلنڈر اور شرعی عدالتیں بھی کالعدم قرار دے دی گئیں۔
انیس سو اٹھائیس میں عربی رسم الخط کی جگہ ترکی میں لاطینی رسم الخط اختیار کیا گیا اور1932ءمیں عربی میں قرآن کی اشاعت پر بھی پابندی عائد کرکے ترک عوام کو مجبور کیا گیا کہ وہ مقامی یعنی ترکی زبان میں لکھا گیا قرآن پڑھیں،اسی سال مساجد سے عربی زبان میں اذان دینے پر بھی پابندی لگادی گئی اور موذن حضرات کو ترکی زبان میں اذان دینے کے احکامات جاری کیے گئے،مصطفی کمال نے درویشوں کے پہننے والے چغے اور ترکی ٹوپی کا استعمال بھی ممنوع قرار دے دیا،اُسے اسلامی تہذیب و ثقافت سے اِس قدر نفرت تھی کہ اُس نے اسلامی ثقافت سے جڑی ہر نشانی کو مٹانے یا اُس پر پر پابندی لگانے کی کوشش کی ،اُس کی نفرت اور کدروت کا اندازہ لگانے کیلئے یہ حکم ہی کافی ہے کہ آئندہ ترک مسلمان خالقِ کائنات کو عربی نام” اللہ“ کی بجائے ترکی زبان میں ”تانڑی“ نام سے پکاریں گے ۔
لیکن ترکی میں مصطفی کمال پاشا اور اُس کے پیروکاروں کی اسلامی تہذیب وتمدن کے آثار مٹانے اور ترکی کو مکمل طور پر یورپ کے سانچے میں ڈھالنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود اہلیان ترکی کے دلوں میں اسلام اور اسلامی تعلیمات زندہ رہیں،حالانکہ ترک سیکولر فوج اور حکمرانوں نے تمام تر جبری ہتھکنڈوں کے باوجود ترکی سے اسلام اور اسلام کے نام لیواؤں کو مٹانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ،1960ءمیں عربی میں اذان دینے کی اجازت دینے کے جرم میں ترک رہنماءعدنان مندریس کی پھانسی سے لے نجم الدین اربکان،سابق صدر عبداللہ گل اور موجودہ صدر طیب اردگان تک ترکی میں اسلام پسندوں کی صبر آزما جہدوجہد کی ایک طویل داستان ہے،آج وہی ترکی موجودہ صدر رجب طیب اردگان کی قیادت میں نہ صرف اپنے ماضی کی طرف لوٹ رہا ہے بلکہ مستقبل میں عالم اسلام کی رہنمائی کا فریضہ ادا کرنے کی بھی تیاری ہے۔
جبکہ دنیا کاوہ واحد خطہ زمین ”مملکت خداد داد پاکستان “جو قائم ہی اسلام کے نام پر ہوا،آج اپنی اساس وبنیاد سے نہ صرف کوسوں دور ہے،بلکہ رہی سہی کسر ہمارے حکمران وقت پوری کررہے ہیں جو اپنی کمزوریوں اور ناکامیوں کی پردہ دری کرتے ہوئے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاکستان کے اندر تمام مسائل کا اصل منبع ومرکز مذہب اور مذہبی تعلیمات سے منسلک ہے ، حالانکہ اس بات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی مملکت کے موجودہ مسائل کا اصل سبب اسلام اور اسلامی تعلیمات ہیں۔
دہشت گردی کی لہرکے خلاف6 جنوری 2015ءکوپہلے قومی اسمبلی،بعدازاں سینٹ سے منظور ہونے والے اکیسویں آئینی ترمیمی بل اور آرمی ایکٹ 1952ءمیں کی گئی ترامیم بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں،بظاہران قدامات سے حکومت کو ایسا لگتا ہے کہ ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں کے کڑے احتساب کی راہ ہموار ہوگئی ہے،لیکن اَمر واقعہ یہ ہے کہ ان ترامیم کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال نے تشویشناک شکل اختیار کرلی ہے،اندورن سندھ اورحضوصاً صوبہ پنجاب میں حکومت نے اذان،خطبے اور صلوٰۃ وسلام کیلئے لاؤڈ اسپیکر پر پابندی عائد کرتے ہوئے ہزاروں علماءومشائخ اور عوام اہلسنّت کے خلاف مقدمات قائم کرتے ہوئے انہیں گرفتار کیا ہے،جبکہ متعدد ایسی مذہبی کتابوں کی اشاعت پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے جن کا تعلق کسی طور بھی دہشت گردی اور فرقہ واریت کے فروغ سے نہیں ہے ، اردو بازار لاہور کے تقریباً سات سو کتب فروشوں پر مقدمات درج ہوچکے ہیں، پولیس جس کتاب کو مشکوک پاتی ہے اٹھاکر لے جاتی ہے ،میڈیا رپورٹ کے مطابق سیدنا عبدالقادر جیلانی کی کتاب” غنیۃ الطالبین“ کے علاوہ سیدنا مہر علی شاہ صاحب کی کتاب اور مفتی احمد یار نعیمی کی کتابوںپر بھی پابندی عائد کی جاچکی ہے اور تو اور مجاہد اسلام صلاح الدین ایوبی کی سوانح عمری بھی پنجاب حکومت کی پابندی کی زد میں ہے ،دوسری جانب زندگی بھر دین متین کی خدمت اور ساری عمر تحفظ ناموس رسالت کی حفاظت و پاسداری میں گزارنے والے مجاہدین آج اپنی ضمانتیں قبل از گرفتاری کرائے بیٹھے ہیں۔
ابھی اکیسویں آئینی ترمیم کے تحت ہونے والے اقدامات کی گرد بھی نہیں بیٹھنے پائی تھی کہ مرکزی حکومت نظام صلوٰۃ نافذ کرکے ایک اور نیا پنڈورا بلک کھولنے جارہی ہے جہاں تک اذان اور نماز کے اوقات کا تعلق ہے تو یہ ملک بھر میں یکساں نہیں ہوسکتے کیونکہ سورج کے طلوع اور غروب کا وقت اور مختلف مسالک میں اذان اور نماز کے اوقات مختلف ہیں،عیدین کے حوالے سے بھی ہر سال کچھ لوگوں کی جانب سے یہ تجویز سامنے آتی ہے کہ عید سعودی عرب کے مطابق تمام عالم اسلام میں ایک ہی دن منائی جائے،لیکن فقہی اور جغرافیائی حالات کو سمجھنے والے جانتے ہیں کہ یہ ایک غیر ضروری اور ناقابل عمل تجویز ہے،ایساہی رمضان کے چاند اور سحر و افطار کا معاملہ ہے،جس کا اطلاق پورے پاکستان میں نہیں کیا جاسکتا،تمام عالم اسلام تو دور کی بات ہے،اس پس منظر میں ایک خطرناک تجویز یہ بھی سامنے آئی ہے کہ تمام مساجد میں عیدین اور جمعہ کا خطبہ یکساں ہو،جس کا واضح مطلب یہ ہے آئمہ مساجد اُس خطبے کے پابند ہونگے جو حکومت جاری کرے گی،یقینا یہ آئمہ مساجد کا گلہ گھوٹنے اور انہیں سرکاری ملازم بنانے کی سازش ہے اور سعودی طرز فکر کی نقالی ہے،جس کا اطلاق پاکستان جیسے ملک میں ممکن نہیں۔
حالیہ حکومتی اقدامات سے یوں لگتا ہے کہ پاکستان کے سارے مسائل ختم ہوگئے ہیں اور قوم نچنت ہوگئی ہے،شاید اسی لیے حکمران طبقہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسے مسائل اٹھاتا اور بحث ومباحثہ کو دعوت دیتا ہے جس کا کوئی تعلق ملک و قوم کے درپیش مسائل سے نہیں ہوتا،اسی وجہ سے تنظیم المدارس اہلسنّت پاکستان کے سربراہ مفتی منیب الرحمن نے حکومت کو متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ہوش و دانشمندی سے کام لے اور اصل ایجنڈے پر اپنی توجہ مرکوز رکھے،مدارس و مساجد میں بلا سبب خوف و ہراس کی فضا پیدا کرنے سے جو رد عمل جنم لے گا جو انتشار کا سبب بنے گا اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے بنیادی مقصد کیلئے نقصان دہ ثابت ہوگا،دوسری طرف JUP کے سربراہ صاحبزادہ ابوالخیر زبیر کا کہنا تھا کہ اہلسنّت کو دیوار سے لگانے کی کوشش برداشت نہیں کی جائے گی ، اگر حکومت نے ہمارے مطالبات پر توجہ نہیں دی اور اپنی روش نہ بدلی تو جمعیت عملی اقدامات کرنے پر مجبور ہوگی ۔
حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کے سدباب اور اُس کو جڑ سے اکھاڑنے پھیکنے کے حوالے سے کوئی دو رائے نہیں،لیکن غور طلب پہلو یہ ہے کہ اِس ناسور کا اصل محرک کون ہے،فنڈنگ کون کرتا ہے اور اِس کی آبیاری وپرورش کس مکتبہ فکر اور مدرسوں میں کی جاتی ہے، دنیا جانتی ہے کہ بے گناہ افراد کو خاک و خون میں نہلانے والے اور قومی وملی املاک کو نقصان پہنچانے والے دہشت گرد عناصر کے سوتے کہاں سے پھوٹتے ہیں،لہذا شاخون کو کاٹنے کے بجائے جڑوں کی صفائی پر توجہ دی جائے،گزشتہ دنوں پھانسی کی سزا پانے والے دہشت گردوں کے مذہبی اور تنظیمی تعلق حقیقت حال کو عیاں کرنے کیلئے کافی ہیں،مگر افسوس کہ اصل اسباب و محرکات پر توجہ دینے کے بجائے ملک کے اُس مکتبہ فکر کو نشانہ بنایا جارہا ہے جس کے ماننے والوں نے قیام پاکستان کی جدوجہد میں ہراوّل دستے کا کردار ادا کیا اور جس کے اکابرین نے قائد اعظم محمد علی جناح اور مسلم کی تائید وحمایت میں کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا،دوسری جانب خود اِس مکتبہ فکر کے متعدد عالم دین جن میں ڈاکٹر سرفراز نعیمی،مولانا افتخار احمد حبیبی،مولانا قاسم ساسولی،مولانا عبدالعظیم قادری،مولانا نورالدین قادری،علامہ امیر حسین شیرازی ،مفتی محمود شاہ رضوی،پیر سمیع اللہ چشتی اور شہدائے نشتر پارک اِنہی خارجی فکر رکھنے والے دہشت گردوں کی مذموم کاروائیوں کا نشانہ بنے،اِن دہشت گردوں نے محبت واخوت کا درس دینے والی خانقاہوں اور صدیوں سے مرجع خلائق بزرگان دین اور اولیائے کرام کے مزارات کو بھی نہ بخشا۔
چنانچہ اکیسویں آئینی ترمیم کے تناظر میں دہشت گردی کے اصل عوامل واسباب کو نظر انداز کرکے صرف اُس مکتبہ فکر جس کا دہشت گردی اور قومی سلامتی کے منافی کسی سرگرمیوں سے کبھی بھی کوئی تعلق نہیں رہا ، کے مدارس ،مساجد،مذہب و مسلک اور کتب پر قدغن ملکی حالات کو مزید تباہی کی طرف لے جاسکتے ہیں،ہماری ارباب اقتدار سے گزارش ہے کہ وہ ہوش سے کام لے اوروطن عزیزکو ماضی کا ترکی یا حالیہ سعودی عرب بنانے سے گریز کرے،ہر محب وطن جانتا ہے کہ پاکستان کے موجودہ مسائل اور بڑھتی ہوئی دہشت گردانہ سرگرمیوں کی اصل وجوہات کیا ہیں،لہٰذا اصل اسباب پر توجہ دی جائے اورنان ائشو کو ائشو بنانے سے گریز کیا جائے ،بصورت دیگر نہ صرف اصل مسائل سے توجہ ہٹ سکتی ہے بلکہ اس قسم کے اقدامات کے خلاف آنے والا ردِ عمل دہشت گردی کوجڑ سے اکھاڑنے کے بنیادی مقصد کیلئے ہی نہیں قومی وملی یکجہتی کیلئے بھی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے ۔
Post a Comment