آو اب رسم محبت یوں نبھائی جائے
بیچ دیوار جو آئے وہ گرائی جائے
مرتبہ، نام ہے کیا ، ذات سے کیا لینا ہے
شرط رشتوں میں وفا ہی کی لگائی جائے
خوش گماں ہو کے ملیں غیر سے، ہر اپنے سے
کچھ نظر آئے برائی تو سدھائی جائے
ہوں گے مجبور جو یوں چھوڑ چلے جاتے ہیں
جانے والوں سے یہ تہمت بھی ہٹائی جائے
دل بُھلا دیں جو عداوت اور انائیں اپنی
راہ بچھڑوں کی بھی آسان بنائی جائے
آج حسرت سے جو آنکھوں کے دیے بجھتے ہیں
ایک امید نئی ان میں جلائی جائے
اب کہ اترے اے خدا چاند یوں ہر آنگن میں
زندگی عید کی مانند منائی جائے
اپنی دنیا سے نکل آو اگر تم ابرک
ایک دنیا یہاں اب مل کے بسائی جائے
اتباف ابرک
Post a Comment