فقط یہی نہیں ہوا کہ فیصلہ بدل گیا
دلیل کارگر ہوئی تو ضابطہ بدل گیا
مرا رفیق بن گیا فریق ساتھ چھوڑ کر
مسل وہیں دھری رہی مقدمہ بدل گیا
گلی تو اس کی ڈھونڈ لی تھی شہرِ بے لحاظ میں
مگر گواہِ چشم دید کا پتا بدل گیا
وہی ہے مدعا مرا، وہی ہے بے رخی تری
ذرا زبان اور ہے، محاورہ بدل گیا
سوالِ وصلِ یار تشنہِ جواب ہے ابھی
جو ایک مہرباں ہوا تو دوسرا بدل گیا
وہی ہے راستہ مرا, وہی ہیں اس کے پیچ وخم
وہی ہے منزلِ مراد, قافلہ بدل گیا
شکست و فتح اک طرف, ثبات میں کمی نہیں
وہی محاذ آج بھی ہے مورچہ بدل گیا
رمل جفر پہ یاسر انحصار کس لیے کروں
نصیب خود ہی لکھ لیا تو زائچہ بدل گیا
Post a Comment