بیان چند اشعار کا : اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ ؛ دراصل یہ اشعار ہیں کس کے، جو علامہ اقبال سے سے منسوب کئے جاتے ہیں: پڑھیں
فرہاد احمد فگار مظفر آباد، آزاد کشمیر
شاعری کو کسی بھی شاعر کی اولاد کہا جا سکتا ہے۔ جب بھی کوئی شاعر شعر تخلیق کرتا ہے تو وہ اس شعر سے بلاشبہ اولاد جیسی محبت کرتا ہے۔ اگر کسی کی اولاد کو کسی دوسرے کا نام دے دیا جائے تو اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوگا؟ بے شمار شعرا کے ایسے سیکڑوں اشعار ہیں جنہیں دیگر نام ور شعرا کے نام سے لگایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں دیکھا گیا ہے کہ علامہ محمد اقبالؒ کے کھاتے میں زیادہ تر اشعار ڈالے گئے ہیں۔ اس کی جو وجہ میری سمجھ میں آتی ہے وہ یہی ہے کہ اقبالؔ ایسے شاعر ہیں جن کے نام سے ہر کوئی واقف ہے۔ دوسرا جس شعر کا خالق گم نام ہو، وہ شعر اقبالؔ کا یا پھر کسی دوسرے معروف شاعر کا نام لگا کر پیش کردیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں چند اشعار کا ذکر کر رہا ہوں جنہیں ان کے اصل خالق کا نام ہٹا کر اقبالؔ یا کسی دوسرے شاعر کے نام سے پیش کیا جاتا ہے۔ ہمارے کچھ معزز دوست ایک قطعہ اکثر اقبالؔ کے نام سے پڑھ جاتے ہیں:
اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کےلیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فنتہ
اس قطعے کے حوالے سے کچھ کھوج لگانے میں کامیابی ہوئی اور اس کے اصل خالق تک پہنچ گیا۔ میں قبل ازیں بھی لکھ چکا ہوں کہ جو اشعار اقبالؔ کے نام سے منسوب ہوں، ان کی تصدیق نہایت سہل ہے۔ کلیاتِ اقبال تک ہر ایک کی رسائی بہ آسانی ہوسکتی ہے۔ کلیاتِ اقبال سے دیکھ لیجیے۔ اگر تو زیر بحث شعر اس میں یا پھر ’’باقیاتِ اقبال‘‘ میں موجود ہے تو اقبال ہی کا ہے؛ اگر نہیں تو پھر اقبالؔ کی بجائے شاعر نامعلوم لکھ دیا جائے۔ درج بالا قطعے کے حوالے سے عرض ہے کہ یہ قطعہ ہندوستانی ریاست راجستھان کے علاقے مادھوپور، بہیتڑ سے تعلق رکھنے والے شاعر سرفرازؔ بزمی فلاحی کا ہے۔ سرفرازؔ بزمی کی ولادت 20فروری 1949 کو ہوئی۔ ان کا اصل نام سرفراز احمد خان ہے؛ تاہم ادبی حلقوں میں سرفرازؔ بزمی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ سرفراز بزمی نے راجستھان یونیورسٹی جے پور سے گریجویشن فارسی، اردو اور تاریخ کے مضامین میں مکمل کیا۔ انگریزی ادبیات میں ایم اے کی سند، اجمیر یونیورسٹی اجمیر سے حاصل کی۔ بطور مدرس راجستھان میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ سرفرازؔ بزمی کا مذکورہ قطعہ مارچ 1993 میں شعرائے راجستھان کے ایک انتخاب میں جب شائع ہوا تو اس کی صورت کچھ یوں تھی:
جو حق سے کرے دور وہ تدبیر بھی فتنہ
اولاد بھی اجداد بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کےلیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیرتو کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ
(انتخاب قطعات و رباعیات، غوث شریف عارف(مرتبہ) راجستھان اردو اکادمی، جے پور، مارچ 1993)
سرفراز بزمی کے مطابق جب یہ قطعہ ذرا بدل کر مشہور ہوگیا تو انہوں نے بھی اس کی عوامی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے نئی صورت کو قبول کرلیا۔ یہ معلوم نہیں کہ کب اور کس وجہ سے اس قطعے کو اقبالؔ کے کھاتے میں ڈال دیا گیا؟ اب بھی انٹرنیٹ پر یہ قطعہ علامہ اقبالؔ کے نام سے ملتا ہے، جو غلط ہے۔
اب ایک اور شعر کو دیکھتے ہیں جسے اقبالؔ اور کچھ احباب مولانا ظفر علی خان کے نام سے پڑھتے ہیں۔ یہ شعر بھی ضرب المثل کا درجہ رکھتا ہے اور ہمارے تعلیمی اداروں میں اکثر لکھا ملتا ہے:
قسمتِ نوعِ بشر تبدیل ہوجاتی ہے یہاں
اک مقدس فرض کی تکمیل ہوتی ہے یہاں
یہ شعر بھی ایک گمنام شاعر کا ہے جسے مضطرؔ نظامی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مضطرؔ نظامی، جن کا اصل نام خدا بخش اور کنیت ابو طاہر تھی، 18 اگست 1909 کو ضلع سیالکوٹ کی تحصیل پسرور میں پیدا ہوئے۔ تاحال ان کا کوئی مجموعہ منظر عام پر نہیں آیا البتہ ان کا کلام مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوتا رہا۔ مضطر نظامی کی ابتدائی تعلیم امریکن مشن اسکول پسرور میں مکمل ہوئی۔ بیس برس کی عمر میں (1929 میں) گورنمنٹ انٹر کالج پسرور سے میٹرک پاس کیا۔ 1934 میں جامعہ پنجاب سے ادیب عالم بہ درجہ اول پاس کیا۔ اکتوبر 1948 میں جامعہ پنجاب سے گریجویشن مکمل کیا۔ نظامیؔ نے اپنی زندگی درس و تدریس میں گزاری۔ 1937 میں وہ بطور استاد اپنی عملی زندگی کا آغاز کرچکے تھے۔ 31 جون 1967 کو وہ ڈی سی ہائی اسکول قلعہ سوبھا سنگھ، تحصیل نارووال سے ریٹائر ہوئے۔ زندگی کی ساٹھ بہاریں دیکھنے کے بعد مضطر نظامی 9 اکتوبر 1969 کو واصل بہ حق ہوئے۔
مضطر نظامی پر ایم فل کی سطح کے دو مقالے لکھے جاچکے ہیں۔ 1995 میں شیخوپورہ کے مرزا محمد صدیق نے ’’مضطرؔ نظامی: حیات اور فن‘‘ کے عنوان سے مقالہ لکھا جبکہ دوسرا مقالہ پسرور کے محمد افضال نے 2017 میں ’’تدوینِ خدا بخش مضطرؔ نظامی‘‘ کے عنوان سے لکھا۔ یہ دونوں مقالے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں تحریر ہوئے۔ مضطرؔ نظامی کے بیٹے طاہرؔ نظامی بھی شاعر اور استاد ہیں۔ معلومات کی فراہمی کےلیے ان کا بھی شکر گزار ہوں۔ زیر ِبحث شعر مضطر نظامی کی جس نظم کا ہے، وہ یکم مئی 1968 کو روزنامہ نوائے وقت میں بھی شائع ہو چکی ہے۔ ’’پاک درس گاہیں‘‘ کے عنوان سے یہ نظم بھی پیش خدمت ہے:
’’پاک درس گاہیں‘‘
قسمتِ نوعِ بشر تبدیل ہوتی ہے یہاں
اک مقدس فرض کی تکمیل ہوتی ہے یہاں
صرف کرتا ہے جگر کا خون معمارِ عظیم
قوم کے کردار کی تشکیل ہوتی ہے یہاں
تربیت اطفال کی دراصل ہے افضل جہاد
روح تک اُستاد کی تحلیل ہوتی ہے یہاں
چشمِ ظاہر بیں کتابی علم تک محدود ہے
فیضِ روحانی کی بھی تحصیل ہوتی ہے یہاں
رحمتِ باری کا مضطرؔ دیکھ ہوتا ہے نزول
صبح دم قرآن کی ترسیل ہوتی ہے یہاں
جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے، یہ نظم یکم مئی 1968 کے روزنامہ نوائے وقت میں بھی شائع ہوچکی ہے۔ مضطر نظامی مرحوم کے اس شعر کے حوالے سے ایک بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی: جب دو سال قبل میں نے اس شعر کو فیس بک پر لگایا تو ایک دوست محمد عثمان نے اعتراض اٹھایا کہ یہ شعر جناب اقبالؔ کیفی کا ہے۔ اس پر میں نے محترم ناصرؔ زیدی سے رہنمائی طلب کی۔ ناصرؔ زیدی صاحب نے بتایا کہ یہ شعر مضطرؔ نظامی کا ہے اور انہوں نے پسرور میں اپنے اسکول کی دیواروں پر بھی لکھوارکھا تھا۔ محمد عثمان صاحب نے مزید کہا کہ اقبالؔ کیفی بقیدِ حیات ہیں اور لاہور میں مقیم ہیں۔ میں نے ان سے ملنے اور اس گتھی کو سلجھانے کےلیے 14 جنوری 2017 کولاہور کا سفر کیا۔ انجینئرنگ یونیورسٹی میں اقبالؔ کیفی صاحب سے ملاقات کی، ان کی کتاب ’’تلخی شام‘‘ بھی حاصل کی۔ مزے کی بات کہ اس میں بھی یہ شعر موجود تھا۔ لیکن جب سالِ اشاعت دیکھا تو 2011 نظر آیا۔ اس پر مجھے تشویش ہوئی کہ یہ شعر 2011 کا ہر گز نہیں، خاصا پرانا ہے۔ اقبالؔ کیفی کا اس سے قبل ان کے شائع شدہ کسی مجموعے یا کسی اخبار میں یہ نظم یا یہ شعر نہیں ملتے۔ بطور محقق میں نے جائزہ لیا اور اس ضرب المثل شعر کو مضطر نظامی ہی کا تسلیم کیا۔ اقبال ؔکیفی بھی بہت اچھے شاعر سہی لیکن یہ شعر مضطرؔ نظامی مرحوم ہی کا ہے۔ اقبالؔ کیفی کے ہاں توارد یا انتحال کس وجہ سے آیا؟ یہ کہنا محال ہے۔
قارئین کی دلچسپی کے پیش نظر اقبالؔ کیفی کی نظم بھی حاضرخدمت ہے:
آگہی کی، عقل کی، ترسیل ہوتی ہے یہاں
مصطفیٰﷺ کے حکم کی تعمیل ہوتی ہے یہاں
قسمتِ نوعِ بشر تبدیل ہوتی ہے یہاں
اک مقدس فرض کی تکمیل ہوتی ہے یہاں
فطرتِ اِنسانیت تشکیل ہوتی ہے یہاں
رغبتِ آدابِ اسماعیلؑ ہوتی ہے یہاں
عُقدۂ الفاظ کی تفصیل ہوتی ہے یہاں
روز و شب ناخواندگی تحلیل ہوتی ہے یہاں
علم کی، عرفان کی، تحصیل ہوتی ہے یہاں
روز، روشن اک نئی قِندیل ہوتی ہے یہاں
ختم کیفیؔ وحشت و تجہیل ہوتی ہے یہاں
زندگی تفضیل در تفضیل ہوتی ہے یہاں
(اقبال کیفیؔ، تلخیٔ شام، الاشرق کمپوزنگ سنٹر، لاہور، مئی 2011، صفحہ 109)
اس تمام بحث کے بعد یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اقبال کیفیؔ کی نظم کے مقابلے مضطر نظامی کی نظم جان دار اور عمدہ اسلوب کی حامل ہے۔ اقبال کیفیؔ کو چاہیے کہ وہ اپنی نظم کا یہ شعر واوین میں رکھ دیں اور ادب دوستی کا ثبوت دیں۔
اسی طرح حسن ؔظہیر راجا کا یہ شعر دیکھیے جس پر کچھ دوست مغالطے میں مبتلا ہیں:
تیرا ہنسنا بھی کیا مصیبت ہے
میں کوئی بات کرنے آیا تھا
اس شعر کی مقبولیت کا ثبوت یہ ہے کہ کسی مہربان نے اس کو بہت معمولی تحریف کرکے جون ایلیا کے نام کردیا:
تیری آنکھیں بھی کیا مصیبت ہیں
میں کوئی بات کرنے آیا تھا
اس شکل میں انٹرنیٹ پر یہ شعر جون ایلیا کے نام سے ملتا ہے۔ مجھے ایک دوست نے جب یہ دونوں اشعار بھیجے تو مجھے ایک مرتبہ لگا کہ شاید حسنؔ نے غلطی کی۔ میں نے حسن ظہیر سے بات کی تو وہ مسکرایا اور بولا: تم خود تحقیق کرو، مجھے کیا کہتے ہو؟ حسنؔ میرا بہت اچھا دوست ہے اس وجہ سے میں نے کبھی اس کی بے جا تعریف نہیں کی۔ لیکن اس کی یہ خوبی ہے کہ غلطی پر بجائے خفا ہونے کے، شکر گزار ہوتاہے۔ میں نے اپنے تئیں کوشش کی، جون ایلیا کے تمام مجموعے دیکھے، کچھ جون ایلیا کے شیدائیوں سے بھی بات کی مگر ناکام رہا۔ ہر ہر طریقے سے معلوم کیا لیکن سوائے انٹرنیٹ کے کسی مستند ذریعے سے یہ شعر جون ایلیا کا ثابت نہ ہوسکا۔
میرے دوست ظہیرؔ عمر رانجھا نے بھی (جو کہ جون ایلیا سے والہانہ عشق کرتا ہے اور جونؔ کے کلام سے بہت شناسا ہے) تردید کی کہ یہ شعر ہر گز جون ایلیا کا نہیں۔ تمام تر کوشش کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ شعر حسنؔ ظہیر راجا ہی کا ہے۔ قارئین کے ذوقِ تسکین کےلیے حسنؔ کی یہ مکمل غزل حاضر ہے:
وہ پرندے بھی ساتھ لایا تھا
میں نے جس پیڑ کو بلایا تھا
تیرا ہنسنا بھی کیا مصیبت ہے
میں کوئی بات کرنے آیا تھا
یہ ہوائیں بھی کتنی جھوٹی ہیں
ہم نے بس ہاتھ ہی ملایا تھا
پھر کوئی بات آگئی دل میں
میں اسے پاس لے ہی آیا تھا
وہ تو حیرت میں ڈالنا تھا اُسے
کون دریا کو روک پایا تھا؟
تتلیاں بھر گئی تھیں کمرے میں
پھول دیوار پر بنایا تھا
وہ محبت اگر نہیں تھی حسنؔ
اس نے چائے میں کیا ملایا تھا
Post a Comment