امیر خسرو ؒ اور شخصی کمالات : ایک فرد کے اتنے رُوپ کہ آدمی حیرت زدہ رہ جائے
امیر خسرو ؒ اور شخصی کمالات : ایک فرد کے اتنے رُوپ کہ آدمی حیرت زدہ رہ جائے
تحریر ڈاکٹر قمر عبّاس
امیر خسرو ؔنےتیرہویں صدی میں جنم لیا اور ایک جہاں آباد کر لیا۔ ایک فرد کے اتنے رُوپ کہ آدمی حیرت زدہ رہ جائے۔ شاعر اور شاعر بھی ایسا کہ کبھی پہیلیوں اور کہہ مُکرنیوں میں تلاش کیجیے، تو کبھی شادی بیاہ کے گیتوں میں اور کبھی ہندوستان میں فارسی کے سب سے بڑے شاعر کے رُوپ میں۔ موسیقار اور موسیقار بھی ایسا کہ موسیقی کے بہت سے ایسے ساز اور راگ ایجاد کیے کہ جن کے بغیر موسیقی ادھوری لگتی ہے۔ خود تان سین نے اُنہیں نائیک یا سردار مانا۔ صوفی اور صوفی بھی ایسا کہ حضرت خواجہ نظام الدّین اولیاء کا مُرید قرار پایا کہ جس کے بارے میں خود خواجہ نظام الدّین اولیاء کا قول تھا کہ’’ اگر خدا مجھ سے پوچھے کہ تو میرے لیے کیا ہدیہ لایا، تو مَیں کہوں گا خسروؔ۔‘‘مؤرّخ اور مؤرّخ بھی ایسا کہ نظم و نثر کی تصانیف تاریخ کا مستند ماخذ مانی گئیں۔ باپ تُرکی النّسل، ماں ہندوستانی، اثرات ایرانی۔ یوں تُرکی، ایران اور ہندوستان کا حسین امتزاج شخصیت کا مزاج قرار پایا۔ زبانوں پر دسترس کا یہ عالم کہ عربی، فارسی، ہندی، تُرکی، سنسکرت، پنجابی اور سندھی میں رواں۔ علمِ نجوم پر حاوی۔ کئی بادشاہوں کا نہ صرف زمانہ دیکھا، بلکہ اُن کے مصاحبِ خاص بھی کہلائے۔ تاہم، دِل کی نگری کے بے تاج بادشاہ، حضرت نظام الدّین اولیاء ہی رہے۔ آج جب کہ اُن کی وفات کو 750سال ہونے کو آ رہے ہیں، تووہ اپنے نام اور کام کے باعث تاریخ، ادب ، ثقافت و موسیقی میں ایک باوقار اور مُعیّن مقام پر متمکّن ہیں۔
امیر خسروؔ پٹیالی (اسے مومن آباد یا مومن پور کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے)، ضلع ایٹہ، یوپی، ہندوستان میں 1253ء میں پیدا ہوئے۔ ہجری سال 652تھا۔ تاریخِ پیدایش میں کچھ اختلاف بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ والد کا نام، امیر سیف الدّین تھا۔ وہ دہلی کے حُکم راں، شمس الدّین التّمش کے دربار میں اعلیٰ منصب پر فائز تھے۔ رہنے والے ’’کش‘‘ کے تھے۔ تاہم، چنگیز خاں کی حکومت کی بربریّت اور قتل و غارت سے انتہائی کبیدہ خاطر ہو کر ترکِ وطن کیا اور ہندوستان آ بسے۔ اُس زمانے میں سلطان محمد تغلق کی حکومت تھی۔ سیف الدّین انتہائی بہادر اور اعلیٰ درجے کے شمشیر زن تھے۔ سلطان محمد تغلق کو اُن کی دلیری بہت پسند آئی اور یوں وہ سلطان کے قریب ہو گئے۔ خسروؔ کی والدہ، عماد الملک روات کی بیٹی تھیں۔ عماد الملک، غیاث الدّین بلبن کے وزیرِ جنگ اور 10ہزار سپاہیوں کے سردار تھے۔ سو، انہیں بادشاہ کا قُرب حاصل تھا۔ سیف الدّین کی اولاد میں سے اعزاز الدّین (کہیں کہیں انہیں عزیز الدّین بھی لکھا گیا ہے)، جو سب سے بڑے تھے، والد کے انتقال کے بعد اُن کے جانشین قرار پائے۔ وہ عربی و فارسی میں بلند درجہ رکھتے تھے۔ حسّام الدّین سب سے چھوٹے تھے اور اپنے والد کی طرح دلیر اور شمشیر زنی میں ماہر تھے، جب کہ ابوالحسن یمین الدّین دراصل امیر خسروؔ تھے۔ سند کی میزان سے قطع نظر ایک روایت کچھ یوں بیان کی جاتی ہے کہ جب خسرو ؔپیدا ہوئے، تو اُن کے والد اُنہیں لے کر ایک پہنچے ہوئے بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ بزرگ نے بچّے پر ایک نظر ڈالی اور کہا کہ ’’جو بچّہ میرے پاس لایا گیا ہے، قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خاقانیؔ (ایران کے مشہور قصیدہ گو شاعر کا تخلّص) سے بھی آگے بڑھ جائے گا۔‘‘
والد نے اپنی نگرانی میں تعلیم و تربیت کا سلسلہ شروع کیا۔ گرچہ خود مکتبی تعلیم سے بے بہرہ تھے۔ تاہم، بچّے کے لیے اُس کی اہمیت سے غافل نہ رہے۔ البتہ فنِ سپہ گری کی تعلیم کی تمام تر ذمّے داری اپنے سَر لی۔ مکتبی تعلیم شروع ہوئی، تو خوش نویسی سے طبیعت کو فرحت ملنے لگی اور اس کا سبب یہ تھا کہ والد نے اُس زمانے کے مشہور عالم اور مانے ہوئے خوش نویس، مولانا سعید الدّین کی تربیت میں دیا تھا۔ شاعری تو گویا سب سے مرغوب چیز قرار پائی۔ انتہائی آسانی سے شعر موزوں کر لیتے۔ ایک مرتبہ کچھ یوں ہوا کہ خسروؔ کے استاد اور مشہور خطّاط، قاضی اسد الّدین اپنے شاگرد کو اُس زمانے کی انتہائی عالم و فاضل شخصیت، عزیز الدّین کے گھر لے گئے۔ وہ کسی کتاب کے مطالعے میں مصروف تھے۔ استاد نے اپنے شاگرد کا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ ’’بچّہ انتہائی ذہین ہے، آپ اس سے کچھ پڑھوائیے۔‘‘ عزیز الدّین نے خسرو ؔکے ہاتھ میں کتاب دی اور کہا کہ ’’اس میں سے کچھ پڑھ دو۔‘‘ خسرو ؔنے ایسی شیریں سُخنی کا مظاہرہ کیا کہ عزیز الدّین متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ تاہم یہ ضرور کہا کہ ’’ابھی تمہارا مزید امتحان ہو گا۔‘‘ پھر امتحان یہ ہوا کہ خسرو ؔکو چار متفرق اشیا کے نام بتائے کہ جن کو ایک دوسرے سے کوئی ربط نہ تھا اور کہا کہ انہیں شعر میں نظم کرو۔ وہ چار چیزیں تھیں، مُو، بیضہ، تیر اور خرپزہ۔ خسروؔ نے وقت ضایع کیے بغیر ہی ایک رُباعی میں چاروں کو موزوں کر دیا۔ عزیز الدّین بچّے کی ذہانت اور مشّاقی دیکھ کر حیران رہ گئے اور پیش گوئی کی کہ ’’تمہاری شُہرت دیگر شعراء کے مقابلے میں دُگنی ہو گی۔‘‘ ابھی عُمر کی ساتویں یا آٹھویں منزل ہی تھی کہ والد انتقال کر گئے۔ اب پرورش کی ذمّے داری ماں اور نانا نے اپنے ذمّے لی۔ نانا اپنے زمانے کے با اثر انسان تھے اور دلّی کے وزیر عمّاد الملک کہلائے جاتے تھے۔ انہوں نے التّمش سے لے کر غیاث الدّین بلبن تک کا عہد دیکھا تھا اور اُن بادشاہوں کی سلطنت میں اہم عُہدوں پر فائز رہے تھے۔ ہندوستانی کلاسیکی سنگت سے خاص لگاؤ تھا۔ روپے پیسے کی کوئی کمی نہ تھی اور سارے شوق پورے کرتے تھے۔ لہٰذا، اُن کی موسیقی سے دِل چسپی کا شُہرہ سُن کر دُور دُور سے گوّیے آتے اور موسیقی کی خُوب محفلیں جمتیں۔
یوں ابوالحسن (خسرو) کو شاہی دربار اور علم و ادب و موسیقی سے خُوب شغف پیدا ہوا۔ ابوالحسن گھر اور گھر سے باہر ہونے والے واقعات کو نہ صرف دِل چسپی سے دیکھتے، بلکہ اُن کا حصّہ بننے کی بھی کوشش کرتے۔ نانا کی سرپرستی میں تعلیمی منازل تیزی سے طے کیے جانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ نانا کو یک گونہ اطمینان ہوا کہ نواسہ ذہین ہونے کے علاوہ پڑھائی اور کھیل کُود میں بھی خاطر خواہ حصّہ لیتا ہے۔ عنفوانِ شباب کی دہلیز پر قدم رکھا ہی تھا کہ 1271ء میں نانا بھی انتقال کر گئے۔ تاہم، اس وقت تک خسرو فنونِ لطیفہ کے بہت سے شعبوں میں ماہر ہو چُکے تھے۔ خاص طور پر شاعری میں مہارت کا یہ عالم تھا کہ اُن کے کچھ اشعار اتنے مقبول ہوئے کہ گوّیے اُنہیں محفلوں میں گانے لگے۔ یوں خسروؔ کی شُہرت گھر کی دہلیز سے نکل کر گلی کُوچوں تک جا پہنچی۔ نانا کے انتقال کے بعد جو دَور شروع ہوا، وہ کٹھن تھا۔ تاہم باپ اور نانا کے تربیت یافتہ خسرو ؔنے حالات کے سامنے سپر ڈالنے کی بہ جائے سینہ تان کر چلنے کا عزمِ صمیم کیا۔ نوجوانی آتے آتے خسرو فارسی ادبیات و شاعری میں گویا طاق ہو چُکے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ بچپن ہی سے نام وَر شعراء، انوریؔ، سنائی اور خاقانی وغیرہ کا سارا کلام پڑھ چُکے تھے اور شعر موزوں کرنا اور رُباعی کہنا کسی کارِ دُشوار کا حامل نہ تھا۔ جستجو اور شوق، مطالعے کی سنجیدگی، بزرگوں کی صحبت اور طبیعت میں شاعری سے فطری نسبت وہ عوامل تھے کہ جو خسروؔ کی قدم بہ قدم معاونت کر رہے تھے۔
1273ء میں 20برس کی عُمر میں ’’تحفۃ الصغر‘‘ کے نام سے اوّلین دیوان سامنے آیا اور خسروؔ کا نام زبان زدِ عام ہو گیا۔ اُس وقت سلطان بلبن کے بھتیجے، ملک علاؤالدّین کشلو خاں کی عمل داری تھی۔ چُوں کہ خسروؔ کے نانا مختلف سلاطین کے نہ صرف قریب رہے تھے، بلکہ اچھے عُہدے پر بھی مامور رہے اور اُن کے ساتھ خسروؔ بھی دربار میں آتے جاتے رہتے تھے، لہٰذا نانا کے انتقال کے بعد اُنہیں معاشی کفالت کے لیے دربار سے بہتر کوئی راستہ نظر نہ آیا۔ ملک علاؤالدین کشلو خاں سخی اور صاحبِ علم ہونے کے علاوہ اچّھی صحبتوں کا بھی دِل دادہ تھا اور اُس کی شُہرت آس پاس کی ریاستوں تک پہنچی ہوئی تھی۔ خسروؔ دربار سے یوں وابستہ ہوئے کہ کشلو خاں کو اُن کے بغیر دربار سُونا سُونا محسوس ہوتا۔ یوں ہی تقریباً ڈیڑھ برس سے زاید کا عرصہ گزر گیا۔ ایک شام کشلو خاں نے سامانہ کے حاکم، بغرا خاں کو اپنے ہاں کھانے پر مدعو کیا۔ بغرا خاں نے اپنے ہاں کے مشہور شعراء، شمس الدّین دبیرؔ اور فاضی اثیر کو بھی اپنے ساتھ لیا۔ دربار میں محفل سج گئی۔ بغرا خاں کے درباری شعراء نے خُوب اشعار پڑھے اور داد پائی۔ تاہم، جب خسروؔ زمزمہ سنج ہوئے، تو گویا محفل ہی لوٹ لی۔ ہر فرد کلام اور اندازِ کلام کی بہ دولت خسرو ؔ کا گرویدہ ہو گیا۔ خسروؔ کی شیریں سُخنی سے گھائل ہونے والوں میں بغرا خاں بھی شامل تھا، جس نے خوش ہو کر انہیں بیش قیمت انعامات سے نوازا۔ تاہم، کشلو خاں کو یہ بات سخت ناگوار گزری کہ خسروؔ نے بغرا خاں کی نوازشات قبول کیں۔ وہ خسروؔ نے ناراض ہو گیا۔ ہر چند کہ خسروؔ نے اُسے منانا چاہا، مگر بات نہ بنی اور بالآخر کچھ وقت بعد خسروؔ، کشلو خاں کے دربار کو چھوڑ کر بغرا خاں کی مصاحبت اختیار کر بیٹھے۔
امیر خسرو اور شخصی کمالات
یہ1279ء کا زمانہ تھا کہ جب غیاث الدّین بلبن نے بغرا خاں کو بنگال پر چڑھائی کا حُکم دیا۔ بغرا خاں نے امیر خسروؔ کو بھی اپنے ساتھ لیا۔ ایک بڑی فوج کے ساتھ بغرا خاں نے حملہ کیا اور وہ تباہی پھیلائی کہ ہر شخص دہشت زدہ ہو گیا۔ امیر خسروؔ کو یہ ظلم و بربریّت ایک آنکھ نہ بھائی اور وہ بغرا خاں سے علیحدگی اختیار کرنے کے لیے موقعے کی تلاش میں رہنے لگے۔ اتفاق سے اُن ہی دنوں اُن کی والدہ کی طبیعت ناساز ہوگئی اور خسروؔ نے بغرا خاں سے کہا کہ وہ اب مزید نہیں رُک سکتے۔ شمس الدّین دبیرؔ کی خواہش تھی کہ خسروؔ اُن کے ساتھ قیام کریں، مگر وہ آمادہ نہ ہوئے اور یوں خسروؔ نے موقع بہتر جان کر بغرا خاں کو چھوڑ دیا۔1280-81ء میں بلبن کے بڑے بیٹے اور ملتان کے حُکم راں، سلطان محمد نے امیر خسروؔ کی شُہرت سے متاثر ہو کر انہیں اپنے دربار کے شعرائے خاص میں شامل ہونے کی درخواست کی۔ اُس زمانے میں ملتان علم و فن کے ایک مرکز کے طور پر جانا جاتا تھا۔ خسروؔ نے یہ پیش کش قبول کر لی۔ دربار میں خسروؔ کی خوب آؤ بھگت کی جاتی۔ سب ہی خسروؔ کا خیال رکھتے۔ معاشی آسودگی اور طمانیت ملتے ہی خسروؔ نے شاعری اور موسیقی کی طرف بھرپور توجّہ دی۔ انہوں نے شاعری کا دوسرا دیوان، ’’وسط الحیوٰۃ‘‘ قیامِ ملتان ہی میں ترتیب دیا۔ خسروؔ نے ہندوستانی موسیقی میں عربی لحن کی آمیزش کی۔ یہی نہیں، بلکہ عربی اور تُرکی سازوں کے امتزاج سے پنجاب کے لوک گیتوں میں نیا رَس گھولا۔ یہ سب تو کیا ہی، اس کے ساتھ ہی عربی اور فقّہ کی تعلیم کی طرف بھی بھرپور توجّہ دی اور دیکھتے ہی دیکھتے 4،5سال ان ہی مصروفیات میں گزر گئے۔
ایک روز سلطان محمد کو اطلاع ملی کہ مغل سردار، تیمور خاں نے حملہ کر دیا ہے۔ وہ فوری طور پر لاؤ لشکر لے کر ملتان سے لاہور کے لیے روانہ ہوا۔ گھمسان کا رَن پڑا اور سلطان محمد کی فوج نے مغل فوج کے قدم اکھا ڑ دیے۔ پسپا ہوتی فوج نے جب دیکھا کہ فتح کے نشے سے سرشار سلطان محمد کی فوج اب غافل ہو چُکی ہے، تو وہ ایک بار پھر عقب سے حملہ آور ہوئی اور اب جو لڑائی چِھڑی، تو سلطان محمد کی فوج مغلوں کا مقابلہ نہ کر سکی۔ سلطان محمد بھی کام آیا اور مغلوں نے اُس کی فوج کے بہت سے لوگوں کو قیدی بنا لیا، جن میں امیر خسروؔ بھی شامل تھے۔ تاہم، خوش قسمتی سے یہ قید جلد ہی رہائی میں تبدیل ہو گئی اور خسروؔ اوّل دِلّی اور پھر اپنی والدہ کے پاس پٹیالی چلے آئے۔ 1285ء کا سال تھا کہ جب امیر خسروؔ نے حاکمِ اودھ، امیر علی سر جان دار خاں کی مصاحبت اختیار کی۔ اس دربار سے وابستگی محض 2برس قائم رہی۔ گرچہ ہر طرح کا آرام میسّر تھا، مگر خسرو ؔ کو دِلّی کی یاد ستاتی رہی۔
جان دار خاں نے ہر چند بے حد اصرار کیا کہ نہ جائیے ،مگر خسروؔ نہ مانے اور دِلّی چلے آئے، جہاں کیقباد کی حکومت تھی۔ کیقباد کا کچھ وقت پہلے اپنے باپ بغرا خاں سے اس حد تک جھگڑا رہا تھا کہ دونوں کی فوجیں آمنے سامنے آ کر لڑا ہی چاہتی تھیں کہ دونوں لشکروں سے کچھ صُلح جُو اور عاقل افراد نے باپ، بیٹے کو لڑنے سے روکا۔ کیقباد نے خسروؔ سے خواہش ظاہر کی کہ وہ اُن تمام واقعات کو مثنوی کی شکل میں تحریر کر دیں۔ بالآخر خسروؔ نے کیقباد کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے لگ بھگ 4,000ہزار اشعار پر مشتمل مثنوی، ’’قران السعدین‘‘ کے نام سے مرتّب کی۔ یہ 1288ء کا اختتام تھا۔ کیقباد اس مثنوی سے اس قدر خوش ہوا کہ خسروؔ کو ’’مُلک الشّعراء‘‘ کے خطاب سے نوازا ۔ 1290ء میں کیقباد انتقال کر گیا، تو اُس کا بیٹا، کیکاؤس حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے سامنے آیا، مگر اُس کا انتظامِ حکومت 3ماہ ہی چل پایا۔ اب کُہن سالہ جلال الدّین خلجی مسند آرا ہوا۔ شعر و شاعری کا رسیا تھا اور یوں خسروؔ کو اُس کے دربار تک رسائی حاصل کرنے میں کسی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ جلال الدّین خلجی کے دربار میں خسروؔ کے دوست اور مشہور شاعر، حَسن سنجری بھی موجود تھے۔ یوں دونوں شعراء جلال الدّین خلجی سے بہت قریب ہو گئے۔ دِن اچّھے گزرنے لگے اور خسروؔ کے شعری و علمی کمالات کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ 1291ء میں خسروؔ کی دوسری تاریخی مثنوی، ’’مفتاح الفتوح‘‘ سامنے آئی۔ 3برس اور گزرے اور پھر 1294ء کا سال آیا کہ جب خسروؔ نے تخلیقی زندگی کا اہم ترین دیوان، ’’غرۃ الکمال‘‘ ترتیب دیا۔ شاہی راہ داریاں عمومی طور پر اقتدار کی اندھی خواہشات کے تابع ہوتی ہیں، جس میں قرابت کو نفرت بنتے دیر نہیں لگتی۔ یہی کچھ1296ء میں جلال الدّین خلجی کے ساتھ بھی ہوا کہ اُس کا بھتیجا علاؤالدین اپنے چچا کو قتل کر کے طاقت کے نشے سے چُور ہو کر اپنی تخت نشینی کا اعلان کر بیٹھا۔ امیر خسروؔ اُس کی بھی ضرورت بن کر موجود رہے۔ یہی وہ زمانہ بھی تھا کہ جب اُنہیں نظام الدّین اولیاء سے قُربت کا موقع ملا۔ 1299ءمیں مثنوی، ’’مطلع الانوار‘‘ ،1300ءمیں’’آئینۂ سکندری ‘‘اور 1302ءمیں ’’ہشت بہشت ‘‘سامنے آئی، جسے انہوں نے اپنے مُرشد، خواجہ نظام الدّین اولیاء کی نذر کیا۔ یہی وہ سال بھی تھا کہ جس میں امیر خسروؔ نے اپنے روحانی استاد کے اقوال کو یک جا کرنے کے کام کا آغاز کیا۔
زمانے کی تیزی سے تبدیل ہوتی روایات اور اقدار خسروؔ کو بے چین کیے دیتی تھیں۔ سکون کی تلاش کے لیے خواجہ نظام الدّین اولیاء کی صحبت اور قُربت سے بہتر کوئی اور جگہ نظر نہ آتی، چناں چہ اب خسروؔ تھے اور خواجہ کی مصاحبت۔ اس ذیل میں ایک روایت بیان کی جاتی ہے، جس کی تصدیق اب کارِ دشوار سے کم نہیں۔ روایت یہ ہے کہ ایک مرتبہ خواجہ نظام الدّین اولیاء بیمار ہوئے۔ علاج تو جاری رہا، مگر بیماری کا سلسلہ طول پکڑ گیا۔ امیر خسروؔ نے اپنے مُرشد، خواجہ نظام الدّین اولیاء کا دِل بہلانے کے لیے حمدیہ، نعتیہ اور منقبتی کلام قوالی کے اسلوب میں انہیں گا کر سُنایا۔ کہا جاتا ہے کہ خسروؔ کی شیریں سُخنی کو سُن کر خواجہ نظام الدّین اولیاء کی طبیعت بحال اور بشّاش ہو گئی اور اسی کے ساتھ ہی سنگیت میں ثنا کی ایک وضع سامنے آئی، جس کے موجد خسروؔ تھے۔ یہ سب معاملات تو جاری تھے ہی، مگر 1310ء آتے آتے یہ حال ہو گیا کہ خسرو نے خواجہ نظام الدّین اولیاء سے باقاعدہ طور پر تصوّف کا درس لینا شروع کر دیا۔ علاؤالدین خلجی کی حکومتی حکمتِ عملیوں کو سراہنے کے سلسلے میں امیر خسروؔ نے 1311ء میں مثنوی، ’’خزائن الفتوح‘‘ تحریر کی۔ تاہم، عمومی طور پر علاؤالدین خلجی کو اُس کے سخت گیر رویّے کی بِنا پر ناپسند کیا جاتا تھا اور کچھ وقت کے بعد خسروؔ بھی اُن ہی لوگوں میں شامل ہو گئے کہ جو اُس کے طرزِ عمل کو ناپسند کرتے تھے۔1314ء کا سال تھا کہ علاؤالدین خلجی سخت بیمار ہو گیا۔ تاہم، خود اُس کے گھر والے بھی شاید اُس کو صحت یاب نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ یوں وہ ایک دن اُسی بیماری میں مبتلا رہ کر چل بسا۔ اس اثنا میں اقتدار کی رسّا کشی بھی جاری رہی اور درمیان میں ایک دو کم زور حُکم راں مسند نشیں ہوئے۔
1316 ء میں سلطان قطب الدّین مبارک خلجی، جس کی عُمر 18برس تھی، اقتدار پر براجمان ہوا۔ عیش و عشرت کا دِل دادہ اور عورتوں کی سی زیب و زینت کرنے والا قطب الدّین خلجی شاعری کا البتہ بے حد شائق تھا۔ یوں خسروؔ کو دربار سے قریب رہنے کا موقع میسّر آگیا۔ یہاں رہتے ہوئے خسروؔ نے دیوان ’’بقیہ نقیہ‘‘ کی تدوین کی۔1318ء میں بادشاہ نے خسروؔ سے مثنوی لکھنے کی فرمایش کی اور یوں خسروؔ کی انتہائی مشہور مثنوی، ’’نہ سپہر‘‘ سامنے آئی۔ کہتے ہیں کہ اس مثنوی کو پڑھ کر بادشاہ کو فتوحات سے التفات ہوا۔ اب 1319 ء کا سال آیا اور امیر خسرو کی ’’ملفوظاتِ حضرت نظام الدّین اولیاء‘‘ مرتّب ہوئی۔ اب خسروؔ قطب الدّین مبارک خلجی کی بے راہ روی اور غیر فطری حرکات کی وجہ سے اُس سے بدظن ہو کر تقریباً روزانہ ہی خواجہ نظام الدّین اولیاء کے در پر حاضری دینے لگے۔ قطب الدّین خلجی کو خسروؔ کی اپنے دربار سے دیر تک غیر حاضری چُبھنے لگی اور وہ اُن سے اس بارے میں باز پُرس بھی کرنے لگا۔ 1320ء میں سلطان قطب الدّین مبارک خلجی اپنی ناپسندیدہ حرکات کی وجہ سے اپنے ایک غلام کے ہاتھوں مارا گیا۔ اب امیر خسروؔ کا دِل صرف اور صرف خواجہ نظام الدّین اولیاء کی سنگت میں لگتا۔ رات دن اُن ہی کے یہاں حاضری دی جاتی۔ یہاں تک نوبت آئی کہ خسروؔ نے ایک لاکھ سکّۂ رائج الوقت ادا کر کے اپنے دَم ساز اور مُرشد، خواجہ نظام الدّین اولیاء کی نعلین خرید لی۔ ابھی اس روحانی سکون کو چند ہی برس ہوئے تھے کہ 1325ء میں خواجہ نظام الدّین اولیاء دُنیا سے کُوچ کر گئے۔ اپنے مُرشد کے انتقال سے تو گویا خسروؔ کی مَن کی نگری ہی اُجڑ کر رہ گئی۔ بِنا خواجہ نظام الدّین اولیاء کے اُنہیں کسی کَل چین نہ پڑتا اور بالآخر وہ بھی چند ماہ کے اندر اُسی برس انتقال کر گئے۔
خسروؔ کے ہندی گیت تو اپنی مثال آپ ہیں۔ زمانے سے برّصغیر میں ان گیتوں کو مختلف مواقع پر گایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ،امّاں میرے بابا کو بھیجو جی… کہ ساون آیا…بیٹی تیرا بابا تو بوڑھا ری… کہ ساون آیا…امّاں میرے بھّیا کو بھیجو جی…کہ ساون آیا…بیٹی تیرا بھّیا تو بالا ری…کہ ساون آیا… جو پیا آون کہہ گئے…اجھوں نہ آئے… سوامی ہو… اے جو پیا آون کہہ گئے… آئے نہ بارہ ماس… اے جو پیا آون کہہ گئے…کاہے کو بیاہی بدیس… رے اکھیاں بابل مورے۔خسرو ؔکی پہیلیاں بہت مشہور ہیں۔ نمونے کے طور پر چند ایک پہیلیاں پیش کی جا رہی ہیں۔فارسی بولی آئی نہ…ترکی بولی پائی نہ …ہندی بولو آرس آدے …کہے خسروؔ کوئی بتلا دے۔ پہیلی میں آئینے کا نام فارسی، تُرکی اور ہندی میں لیا گیا ہے،مگر پڑھنے والے کو محسوس ہی نہیں ہوتا۔ایک تھال تھا موتیوں سے بھرا…سب کے سَر پر اوندھا دَھرا…چاروں اور وہ تھالی پِھرے…موتی اُس سے ایک نہ گرے(آسمان)۔رات سمے ایک سوہا آیا …پُھولوں پاتوں سب کو بھایا…آگ دیے وہ ہوے روکھ… پانی دیے وہ جاوے سوکھ(آتش بازی کا انار)ایک گُنی نے یہ گُن کینا … ہریل پنجرے میں دے دینا…دیکھو جادو گر کا حال …ڈالے ہرا نکالے لال(پان)۔
خواجہ الطاف حسین حالیؔ نے ’’یادگارِ غالبؔ‘‘ کا اختتام جن آخری پانچ سطروں میں کیا ہے، وہ تین شخصیات کی عظمت کا بیان ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ان تمام باتوں پر نظر کرنے کے بعد مرزا (غالبؔ) کی نسبت یہ کہنا کچھ مبالغہ نہیں معلوم ہوتا کہ لٹریری قابلیت کے لحاظ سے مرزا جیسا جامع حیثیات آدمی امیر خسرو ؔاور فیضیؔ کے بعد آج تک ہندوستان کی خاک سے نہیں اُٹھا اور چُوں کہ زمانے کارُخ بدلا ہوا ہے، اس لیے آیندہ بھی یہ امید نہیں ہے کہ قدیم طرز کی شاعری و انشا پردازی میں ایسے باکمال لوگ اس سر زمیں پر پیدا ہوں گے۔‘‘
Post a Comment