غزل
(بہزاد لکھنوی)
تم کیفیت نہ ڈھونڈو میرے دل و جگر میں
نظروں سے پوچھ لو نا کیا ہے مری نظر میں
کیا ہیں نئی ادائیں اس چشمِ فتنہ گر میں
رعنائیاں ہیں لاکھوں خود عشق کی نظر میں
دو اشک میں گرا کر خاموش ہوگیا ہوں
افسانہ کہہ رہا ہوں الفاظِ مختصر میں
ان کا کرم تو دیکھو ان کی عطا تودیکھو
مجھ میں سما گئے ہیں آکر مری نظر میں
ہم نے سکون کھویا، ہم نے سکون پایا
سو انقلاب آئے اک جنبشِ نظر میں
اللہ میرے دل میں ہلچل سی مچ رہی ہے
یہ کیا لکھا ہوا ہے روئے پیامبر میں
میری ہی طرح اس کو مجبورِ قلت سمجھو
جو بھی کہ بیٹھ جائےگھبرا کے رہگذر میں
تاروں کو ہے شکایت، ہے ماہ کو بھی شکوہ
شب کا نہ ذکر آیا افسانہ سحر میں
تم خود مجھے بتادو اب اس سے کیا میں پوچھوں
تم تو نہ جانے کیا ہو بہزاد کی نظر میں
إرسال تعليق