Netherlands: simulated girl used to identify sexual exploitation نیدرلینڈز: فرضی لڑکی کی مدد سے جنسی استحصال کی نشان دہی

Netherlands: simulated girl used to identify sexual exploitation   نیدرلینڈز: فرضی لڑکی کی مدد سے جنسی استحصال کی نشان دہی


نیدر لینڈز میں انسانی حقوق کی ایک تنظیم کا کہنا ہے کہ اس نے دنیا بھر سے بچوں کا جنسی استحصال کرنے والے ایک ہزار افراد کی نشاندہی کی ہے۔


ان افراد کو ایک دس سالہ فرضی لڑکی کا کردار تخلیق کر کے اس کے ذریعے آئن لائن جنسی تعلق کی پیشکش کر کے سامنے لایا گیا۔


فلپائنی نقوش والی اس تصوراتی لڑکی کا نام ’سویٹی‘ رکھا گیا تھا۔






ٹیئر ڈے زوم نامی اس تنظیم نے ان افراد کی شناخت پولیس کے سپرد کر دی ہے جو ترقی پذیر ممالک سے تعلق رکھنے والے بچوں کو ’آن لائن سیکس‘ کے لیے رقم ادا کرنے کو تیار تھے۔

انسانی حقوق کے اس گروہ کے سربراہ ایلبرٹ جیپ نے ہیگ میں صحافیوں کو بتایا کہ ’یہ افراد سویٹی کو کیمرے کے سامنے جنسی حرکات کرنے کے عوض رقم دینے کو تیار تھے۔‘

تنظیم کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد بچوں کے استحصال کے تیزی سے پھیلتے ہوئے اس نئے رجحان کی جانب توجہ مبذول کرانا ہے۔ اس رجحان کو ’ویب کیم چائلڈ سیکس ٹورزم‘ یعنی کیمرے پر بچے کے ساتھ جنسی تفریح کا نام دیا گیا ہے اور صرف فلپائن ہی میں لاکھوں بچے اس کا شکار ہیں۔

سویٹی کو بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے تنظیموں نے بنایا اور اسے ایمسٹرڈیم کی ایک دور دراز عمارت سے انٹرنیٹ کے چیٹ رومز سے منسلک کیا گیا۔

دس ہفتوں کے دوران بچوں سے جنسی تعلق کے خواہاں 71 ممالک کے 20 ہزار افراد نے اس سے رابطہ کیا اور اسے کیمرے کے سامنے جنسی حرکات کرنے کو کہا۔

سویٹی سے رابطہ کرنے والے ایک شخص جس نے اپنا نام ’اولڈر فار ینگ‘ رکھا ہوا تھا اس کی شناخت امریکہ میں ایک 35 سالہ شخص کے طور پر ہوئی ہے جس کے دو بچے بھی ہیں۔ اس نے سویٹی کو لباس اتارنے کے لیے دس ڈالر دینے کی پیشکش کی۔

اس نے لکھا ’ اپنا کیمرا آن کرو میں بے تاب ہوں۔‘


جس دوران وہ اس لڑکی سے بات چیت کر رہا تھا تنظیم کے محققین نے سوشل میڈیا کے ذریعے اس کے بارے میں معلومات اکٹھی کر لیں۔


ان معلومات کے ذریعے انہوں نے اس شخص کی شناخت حاصل کی اور پولیس کو دے دی۔


اس مہم کے سربراہ ہینز گائٹ کا کہنا ہے کہ ’سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پولیس اس وقت تک کوئی اقدام نہیں کرتی جب تک استحصال کا شکار بچے خود شکایت نہ کریں۔ لیکن ایسے جرائم کے بارے میں بچے کبھی شکایت نہیں کرتے۔‘


تنظیم نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ’اس جرم میں ملوث افراد موسیقار، فنِ تعمیرات کے ماہر اور خود بچوں کے باپ تھے۔‘


سویٹی کی جائے قیام ایمسٹرڈیم کی ایک دور دراز عمارت ظاہر کی گئی


ہینز گائٹ بتاتے ہیں کہ ایسے لوگوں کا تعلق دنیا بھر سے تھا، امریکہ، یورپ حتیٰ کہ انڈیا، جاپان اور کوریا سے بھی۔‘


گائٹ کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے وہی طریقہ استعمال کیا جو پولیس کرتی ہے ’یہ بات درست ہے کہ ہم نہ استغاثہ ہیں نہ ہی جج، اب یہ پولیس کا کام ہے کہ ہم نے جو معلومات دی ہیں وہ ان کے ساتھ کیا کریں گے۔‘


اس تحقیق میں شامل افراد نے نتائج کو حیران کن قرار دیا۔


گائٹ کا کہنا ہے کہ ’ایک دس سالہ فلپائنی لڑکی کی جگہ آ کر یہ دیکھنے کا تجربہ بہت چونکا دینے والا تھا کہ کچھ مرد آپ سے کیا چاہتے ہیں۔‘


’بعض مطالبے تو انتہائی بے ہودہ تھے۔‘


ٹیئر ڈے زوم کا کہنا ہے کہ انہوں نے کسی سے خود رابطہ نہیں کیا بلکہ انتظار کیا کہ لوگ خود سویٹی سے جنسی حرکات کرنے کو کہیں۔


جونہی یہ لوگ سویٹی کو ایسے حرکات کے لیے رقم کی پیشکش کرتے، گفتگو وہیں منقطع کر دی جاتی۔


اقوامِ متحدہ اور امریکہ کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کے مطابق بچوں سے جنسی تعلق کے خواہاں ساڑھے سات لاکھ افراد ہمہ وقت آن لائن موجود ہوتے ہیں۔

Post a Comment

أحدث أقدم