Awami tawaquaaat عوامی توقعات، کالم نگار | ڈاکٹر تنویر حسین (نوائے وقت، اشاعت 2 جنوری 13)
جب مشرف کا مارشل لا آیا تو ہم نے لوگوں کی آنکھوں میں ایک عجیب خوشی اور تبدیلی کی چمک دیکھی میری آنکھوں نے لوگوں کو حلوائیوں کی دکانوں پر بھی جاتے دیکھا۔ ہم نے ایک عام آدمی سے پوچھا کہ آپ مشرف صاحب کی آمد پر مٹھائی کی دکان پر کیوں جا رہے ہیں۔ آپ ذرا دماغ پر زور دیں کہ پاکستانی عوام ایوب خان‘ یحیٰ خان اور ضیاء الحق کے مارشل لائوں کے ذائقے چکھ چکے ہیں اور آپ ہیں کہ جمہوریت کی دری لپیٹے جانے اور مارشل لاء کے قالین بچھائے جانے پر بغلیں بجا رہے ہیں۔ اس آدمی نے مجھ سے کہا کہ آپ کیا جانیں کہ نقلی اور اصلی میں کیا فرق ہوتا ہے۔ یہ مارشل لا اصلی اور کھرا ہے۔ اب کڑا احتساب ہونا ہے‘ جن لوگوں کے شکموں میں قومی خزانے کا مال ککڑوں کوں کر رہا ہے‘ وہ مال برآمد کیا جائے گا۔ اداروں کو تباہی سے بچایا جائے گا اور ملک پر کرپٹ سیاستدانوں کا سایہ بھی نہیں پڑنے دیا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ پھر چشمِ فلک نے نظارہ کیا کہ امریکہ افغانستان پر لائو لشکر کے ساتھ چڑھ دوڑا‘ اور ہم نے امریکہ کے فرنٹ لائن اتحادی ہونے کا اعلان کر دیا۔ پھر دھماکوں اور خودکش دھماکوں کا دور شروع ہوا۔ ہر طرف لاشیں ہی لاشیں دکھائی دینے لگیں۔ لوگ پھر جمہوریت کے خواب دیکھنے لگے۔ یہ جمہوریت تیر مارکہ تھی۔ لوگوں نے سوچا تھا کہ اب ایک ایسی جمہوریت آئی ہے، جو لوڈشیڈنگ‘ دہشت گردی‘ قتل‘ ڈکیتیوں اور اغوا برائے تاوان کا خاتمہ کرکے عوام کو سکھ کاسانس لینے کا موقع فراہم کرے گی اور عوام کی خدمت کر کے اس کے دل میں جگہ بنائے گی۔ لیکن وہ جمہوریت شاید تھکی ہوئی تھی‘ اس نے آرام کرنا شروع کر دیا۔ آمریت سے تنگ آئے عوام نے دیکھا کہ قوم اور ملک کی خدمت صرف بھاگ دوڑ کر کے یا اپنا آرام تج کے ہی نہیں‘ آرام کر کے اور اقتدار کے ایوانوں میں مزے سے بیٹھ کر بھی کی جا سکتی ہے۔ تیر مارکہ جمہوریت میں عوام کی خدمت کا ایک طریقہ یہ بھی سامنے آیا کہ سوئس حکومت کو خط لکھا جائے۔ عوام بیچارے خط کی جزئیات کا انتظار کرتے رہے مگر ادب کی رو سے بہترین خط وہ ہوتے ہیں جو پڑھ کر پھینک دئیے جاتے ہیں۔ خط نہ لکھنے کی پاداش میں وزیرِاعظم گیلانی کارکنوں کے ہمراہ جاہ و جلال کے ساتھ عدالتِ عظمیٰ میں پیش ہوتے رہے۔ ہمارے دوست پروفیسر خالد رفیع کے بقول‘ گیلانی صاحب زمانۂ طالب علمی میں خطوط نویسی میں مہارت نہیں رکھتے تھے اور شاید انہوں نے عالمِ شباب میں بھی کسی کو خط نہیں لکھا۔ خط نہ لکھنے کی یہی مشق رنگ لائی اور آپ تیس سیکنڈ کی سزا قبول فرما کر سیاسی شہید کے درجے پرفائز ہوگئے۔ شاہ صاحب کے بعد راجا کی بارات آئی۔ آتش بازی ہوئی مگر عوام کے حصے میں صرف شُرلیوں اور پٹاخوں کی آوازیں آئیں۔
کل میں بازار میں نکلا۔ میں حکومت سے مطمئن تھا ہی مگر اچانک بجلی کے غائب ہوتے ہی ایک دوست نے دوسرے دوست سے کہا کہ شیر کو پھر لائو اور اندھیرے میں ٹھوکریں کھائو۔ دوسرا بولا، اسی لئے حکومت مخالف ریلیاں رش لے رہی ہیں۔ کچھ دن پہلے لوگ اس بات پر اطمینان کا اظہار کر رہے تھے کہ جمہویت تو بچ گئی لوگوں نے گذشتہ جمہوریت کا عہد رو رو کر اس امید پر کاٹا کہ مستقبل کی جمہوریت کا سورج نئی آب و تاب اور عوام دوست حکمتِ عملیوں کے ساتھ طلوع ہو گا۔ مگر خبریں قتل‘ چوریوں‘ ڈکیتیوں اور دھماکوں پر مبنی سماعتوں سے ٹکرا رہی ہیں اور گھروں میں بیٹھے لوگ خوفزدہ ہو رہے ہیں۔ کراچی کے حالات دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ احتساب گرفتاریوں تک محدود ہے۔ دہشت گرد اور بھتہ خور روزانہ پکڑے جا رہے ہیں لیکن جرائم کا سلسلہ تھمنے میں نہیں آ رہا۔ جہاں پولیس کے اعلیٰ افسران نشانے پر رکھ کر مارے جا رہے ہوں وہاںعام شہری کدھر جائے۔ مقبول ترین سیاسی حکومت کی چھے ماہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگ رہا ہے۔ مخالفین اسی بات پر سیاست کا تماشا لگا رہے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک سوچ یہ بھی ہے کہ ہم نے امریکہ کو ٹھیک کرنا ہے، ہندوستان کا دماغ درست کرنا ہے۔ یہ صورتحال کسی شاعر نے یوں بیان کی ہے :
بستیاں چاند ستاروں پہ بسانے والو!
کرۂ ارض پہ بُجھتے چلے جاتے ہیں چراغ
اگر چھے ماہ میں ہم اپنے شہروں کی دہشت گردی (سٹریٹ کرائم) پر قابو نہ پا سکے تو سابقہ دور کی فرسٹریشن پھر شروع ہو جائے گی اور عوامی رائے کسی اور جانب منتقل ہو جائے گی۔ ہمارے عوام کی ساری امیدوں کا مرکز وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف صاحب ہیں۔ اگرچہ ہمارا دفتری نظام انہیں عوام سے دور لے جانے کی راہ دکھاتا رہتا ہے مگر وہ چکر کاٹ کر پھر عوام کی خدمت کے لئے بے قرار ہو جاتے ہیں۔ ان سے التماس ہے جو نعرے سڑکوں پر لگ رہے ہیں‘ یہ ان کا جواب عملی صورت میں دیں۔
إرسال تعليق