ساقی نامہ
(ماہر القادری)
زمانہ کی رسالت پر تری ایمان ہے ساقی
مگر اُلفت تری ایمان کی بھی جان ہے ساقی
ترے کردار پر دشمن بھی اُنگلی رکھ نہیں سکتا
ترا اخلاق تو قرآن ہی قرآن ہے ساقی
مشیّت بھی تری مرضی کے تیور دیکھ لیتی ہے
بہ ایں اقرارِ عبدیت یہ تیری شان ہے ساقی
تجھے جس نے نہ پایا وہ خدا کو پا نہیں سکتا
کہ تیری معرفت اللہ کی پہچان ہے ساقی
کسی صورت ترے دربارِ اقدس تک پہنچ جاؤں
مجھے دشوار ہے تیرے لیے آسان ہے ساقی
ترے آتے ہی انسانیتِ کبریٰ اُبھر آئی
زمانہ پر ترا احسان ہی احسان ہے ساقی
گنہگاروں کی نظریں تیری جانب اُٹھ رہی ہوں گی
ہجومِ حشر میں تیری یہی پہچان ہے ساقی
نہ وہ ایمان کی گرمی نہ وہ تنظیم اُمّت کی
نہ مصر و شام پہلے سے، نہ وہ ایران ہے ساقی
خلافت دے کے بھیجا تھا جسے حق نے زمانہ میں
وہی انسان اب مغرب زدہ انسان ہے ساقی
مری آنکھوں نے دیکھی ہے عجم کی بزم آرائی
غضب ہے محفلِ بغداد بھی ویران ہے ساقی
نگاہ و دل پہ قبضہ کرلیا ہے علمِ حاضر نے
کوئی منکر کوئی باغی کوئی حیران ہے ساقی
جہاں میں انتشار و برہمی کا دَور دَورہ ہے
اِدھر طُغیان ہے ساقی، اُدھر طوفان ہے ساقی
بتوں کی طرح قبروں کی طرف پیشانیاں خم ہیں
خدا کے ماننے والوں کا یہ ایمان ہے ساقی
خداوندانِ دولت کی خدائی آہ کیا کہئے!
کوئی فرعون ہے ساقی کوئی ہامان ہے ساقی
مسلماں، نامسلمانوں کی صف میں آئے جاتے ہیں
کہ اب ایمان اک ٹوٹا ہوا پیمان ہے ساقی
جو ڈوبے ہیں نکل آئیں، جو گرتے ہیں سنبھل جائیں
توجہ سے تری اس کا ابھی امکان ہے ساقی
تری رحمت بالآخر رحم فرمائے گی اُمّت پر
یہی اک چیز ہے جس سے کہ اطمینان ہے ساقی
إرسال تعليق