پاکستانی سوشل میڈیا میں انقلاب کا سال
پاکستان میں سوشل میڈیا کے صارفین کی تعداد بے شک بعض لوگوں کے خیال میں آٹے میں نمک کے برابر ہے، مگر اس پر ایک دنیا آباد ہے جس کی آبادی میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہو رہا ہے۔
جہاں 2013 میں انتخابات کی گہماگہمی اور اس کے بعد کے مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج کے لیے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال ہوا، وہیں سماجی مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے بعض اوقات فردِ واحد اور بعض اوقات تنظیموں کی جانب سے اٹھائے جانے والے معاملات تحریک کی شکل اختیار کر گئے۔
ہم نے سوال پوچھا کہ سنہ 2013 میں ایسے کون سے واقعات تھے جو اس کے بدلتے منظر نامے کو بیان کرتے ہیں؟
ایکسپریس ٹریبیون کے ویب ایڈیٹر جہانزیب حق کہتے ہیں کہ ’اگر انتخابات کی مثال لیں، تو پاکستان تحریکِ انصاف نے بہت موثر طریقے سے سوشل میڈیا پر مہم چلائی جس سے ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد پر اثر پڑا۔‘
جیو نیوز کی اینکر ماریہ میمن جو سوشل میڈیا پر بذاتِ خود بہت مقبول ہیں، کہتی ہیں: ’بلاشبہ شاہ زیب قتل کیس۔ جس طرح کی سوشل میڈیا نے مہم چلائی ہے نوجوان جو اکٹھے ہوئے ہیں اور اس نہج تک لے کر آئے اس کیس کو کہ وہ اتنی اہمیت اختیار کرگیا۔‘
مصنف اور کالم نگار رضا رومی کا کہنا تھا: ’جب حکیم اللہ محسود ڈرون حملے میں مارے گئے تو آپ اس پر ذرا سوشل میڈیا پر ردِ عمل اٹھا کر دیکھ لیجیے اور آپ دیکھیے کہ کس قدر کنفیوژن، پروپگینڈا، آپ کو وہ تمام تر عوامل دکھائی دیں گے۔‘
حال ہی میں پاکستان میں فیس بک کے صارفین کی تعداد ایک کروڑ 20 لاکھ سے بڑھ گئی جو پاکستان کی کل آبادی کا سات فیصد کے قریب بنتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس تعداد میں زیادہ اضافہ سنہ 2013 کے دوران ہوا۔ دوسری مقبول ویب سائٹس میں ٹوئٹر، لنکڈ ان، پن ٹرسٹ، بلاگز، یوٹیوب اور ویمیو جیسی ویڈیو شیئرنگ ویب سائٹس شامل تھیں۔
پاکستان کے سوشل میڈیا کے صارفین کا تعلق زیادہ تر شہری علاقوں سے ہے جن میں نوجوانوں کی اکثریت ہے۔
تاہم سنہ 2013 کے دوران اس پر سیاست دانوں، اہم شخصیات کی موجودگی میں اضافہ ہوا جس نے اس کو ایک نیا مقام دیا۔
ماریہ میمن کا کہنا تھا کہ ’اگلی نسل کے سیاست دانوں جیسا کہ مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری اگر سوشل میڈیا کو اپنا آلہ بنا رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ سوشل میڈیا پاکستان میں بہت آگے آیا ہے بلکہ روایتی میڈیا اسے استعمال کرتا ہے تو اس سے سنجیدگی بڑھی ہے۔ جو اردو کالمنسٹ تھے، پہلے وہ سوشل میڈیا پر نہیں تھے اتنے زیادہ فعال لیکن انہوں نے بھی اس کی افادیت کو سمجھا ہے۔‘
جہانزیب حق کا خیال ہے سوشل میڈیا خبروں کے پورے نظام کو بدل رہا ہے اور خبریت کی بنیاد بن رہا ہے کیونکہ سیاستدان سوچتے ہیں کہ ’اب پریس کانفرنس کیوں کریں، اب ہم ٹوئٹر پر اپنا بیان دے سکتے ہیں اور بات چیت بھی کر سکتے ہیں۔‘
کیا سوشل میڈیا ایک محفوظ جگہ ہے جہاں آپ مہذبانہ طریقے سے اظہارِ خیال کر سکتے ہیں، بغیر اس خطرے کے کوئی آپ کی بحث میں مخل ہو یا بد تہذیبی کا مظاہرہ کرے؟
فیس بک پاکستان میں مقبول ترین سوشل میڈیا ویب سائٹس میں نمایاں ہے جس کے صارفین ایک کروڑ 12 لاکھ سے زیادہ ہیں
ماریہ میمن کا خیال تھا کہ یہ باقی دنیا کی طرح یہاں بھی عام ہے مگر رضا رومی اس سے اتفاق نہیں کرتے۔
رضا کا کہنا ہے کہ ’آپ اب تو ڈھنگ سے یا مہذب طریقے سے کوئی بحث یا گفتگو کر ہی نہیں سکتے۔ اس طرح بھی دیکھیے کہ نوجوان لوگ جو ہیں پاکستان میں خصوصاً 18 اور 25 کی عمر کے درمیان جو بہت سے کیسز میں تاریخ سے نابلد ہیں شعور پختہ نہیں ہوا وہ بات بھی گالی گلوچ کے انداز میں کرتے ہیں۔ اس ماحول میں بالکل بحث نہیں ہو سکتی۔‘
2013 میں دہشت گرد تنظیموں اور کالعدم یا شدت پسند تنظیموں کی سوشل میڈیا پر موجودگی نے ایک نئے سوال کو جنم دیا جس کی ایک بھیانک تصویر راولپنڈی کے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران دیکھی گئی اس فساد کی نقلی تصاویر سوشل میڈیا پر پراپگینڈا کے طور پر شیئر کی گئیں۔
2013 کے دوران ایک اہم مسئلہ پاکستانی سوشل میڈیا پر مختلف سیاسی جماعتوں، تنظیموں اور ایجنسیوں کے مبینہ تنخواہ دار اہل کاروں کی موجودگی کی صورت میں سامنے آیا جو اس فورم کے صحت مند استعمال کی راہ میں سب بڑی رکاوٹ ہیں۔ مگر کیا واقعی ایسا ہے اور اگر ہے تو اس کے اثرات کیا ہیں؟
رضا رومی کے مطابق ’دو طرح کے پیڈ (جنہیں پیسے دیے جاتے ہیں) لوگ ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ ہوتے ہیں جو کھلم کھلا علی الاعلان اپنی جماعت یا گروہ کا پرچار کر رہے ہوتے ہیں۔ آپ کو معلوم بھی ہوجاتا ہے کہ وہ کارکن ہیں یا سوشل میڈیا کی ٹیم کا حصہ ہیں۔جس میں کوئی امر مانع نہیں ہے۔ مگر مسئلہ وہاں پر آتا ہے جب وہ بدزبانی اور بد اخلاقی پر اتر آتے ہیں۔ اور یہ کسی بھی طرح قابلِ قبول نہیں ہے۔‘
سوشل میڈیا پر موجود ٹرولز یا پیڈ (جنہیں پیسے دیے جاتے ہیں) لوگ دوسری قسم کے بھی ہیں جن کے بارے میں رضا کہتے ہیں کہ ’ایک اور طرح کے پیڈ لوگ وہ ہیں جو بظاہر تو معلوم نہیں ہوتا کہ وہ پیسے لے کر کام کر رہے ہیں مگر ان کا جو مواد ہوتا ہے اور جو ان کے نشانے پر لوگ ہوتے ہیں، اس معلوم ہوتا ہے کہ وہ شاید خفیہ اداروں یا چند جہادی تنظیموں کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘
رضا رومی کا کہنا تھا کہ ’آپ آسانی سے ان لوگوں کو پہچان سکتے ہیں کیونکہ ان کے ٹوئٹر پر فالور بہت کم ہوتے ہیں اور وہ اپنے آپ کو سچا محبِ وطن، سچا مسلمان، سچا لبرل لکھتے ہیں۔ اور ان کا مقصد ہوتا ہے کہ ایک مخصوص گروہ ہے لوگوں کا جو سوشل میڈیا پر اپنی رائے کا اظہار آزادی سے کرتا ہے ان کو نشانہ بنایا جائے۔ ان لوگوں کے خلاف پراپگینڈا کیا جاتا ہے، ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے تاکہ ان کے اعتبار کو نقصان پہنچایا جائے۔‘
جبکہ جہانزیب کا خیال تھے کہ یہ معاشرے کا آئینہ ہے جو معاشرے میں ہے وہ سوشل میڈیا پر نظر آتا ہے۔
’یہ ہمارے معاشرے میں ہے۔ جوں جوں ہماری آبادی آن لائن آئے گی اسی طرح یہ سب لوگ بھی سوشل میڈیا پر آئیں گے۔‘
مگر سوشل میڈیا پر صرف دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو ہی مواقع نہیں ملے بلکہ بعض ایسے گروہوں کو بھی اپنی بات کہنے اور دوسروں تک پہنچانے کا موقع ملا جسے روایتی میڈیا نظر انداز کر دیا کرتا تھا۔
وکیل اور کالم نگار یاسر لطیف حمدانی نے بتایا کہ ’ایک ٹوئٹر ٹرینڈ چلتا ہے ’اسلام احمدیہ‘ لیکن جب یہ ٹرینڈ چلتا ہے تو نہ حکومت اس کے بارے میں کچھ کر سکتی ہے اور نہ باقی قدامت پسند حلقے کچھ کر سکتے ہیں جو ان کی آواز کو دبانے کی عموماً کوشش کرتے ہیں۔‘
جہانزیب حق کا خیال ہے کہ اس صورتحال میں تبدیلی آہستہ آہستہ آتی جائے گی، جب ہمارے ماہرینِ تعلیم آجائیں گے، ہمارے باقی ادارے آجائیں گے، ہماری کاروباری شخصیات آ جائیں گی تو ٹوئٹر زیادہ معیاری ہو جائے گا۔‘
جہانزیب کا کہنا تھا کہ ’2014 میں سوشل میڈیا کا سب سے بڑا چیلنج یہی ہو گا کہ اس نئے میدان میں ہماری ریاست کا کیا کردار ہو گا اور ہمارے معاشرے کی کیا شکل عالمی سطح پر نظر آئے گی۔ یہ ہونا ہے اور اسے کوئی نہیں روک سکتا۔‘
2013 جہاں ایک تاریخی نوعیت کی تبدیلیوں کا سال تھا وہیں سوشل میڈیا کو اس نے ایک نئی قوت اور اعتبار بخشا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا سوشل میڈیا پاکستان کے روایتی میڈیا کی طرح شتر بے مہار کی طرح چلے گا یا اس میں سنجیدگی کا کم ہوتا ہوا عنصر منفی اور تخریبی عناصر پر غلبہ پا کر اسے ایک ایسے فورم کی شکل میں قائم رکھے گا جو بے اختیار کو اربابِ اختیار تک رسائی دیتا ہے۔
إرسال تعليق