سابق فوجی سربراہ احتراما عدالت کے سامنے کھڑے رہے، فرد جرم کا معاملہ
ملتوی
اسلام آباد ۔ پاکستان کی آئینی، فوجی اور سیاسی تاریخ کے سب سے اہم مقدمے میں منگل کے روز اس وقت پیش رفت ہوئی جب آئین شکنی کے پہلے مقمے کے اکلوتے ملزم سابق صدر اور سابق فوجی سربراہ پرویز مشرف پہلی مرتبہ خصوصی عدالت میں پیش ہوئے۔
پرویز مشرف جنہیں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے تحت وفاقی حکومت کی طرف سے دائر کردہ آئین شکنی کے مقدمے کا سامنا ہے، کیخلاف اس مقدمے کا باضابطہ آغاز پچھلے سال ماہ دسمبر میں ہوا تھا۔ انہیں فرد جرم عاید کرنے کیلیے یکم جنوری کو طلب کیا گیا تھا۔
لیکن عدالت کے لیے اپنے فارم ہاوس سے روانہ ہونے کے باوجود اچانک طبیعت خراب ہونے کے باعث عدالت کے بجائے فوج کے زیر انتظام امراض قلب کے ہسپتال میں جانا پڑا، وہ تب سے اب تک اسی ہسپتال میں داخل ہیں۔ جہاں سے آج وہ انتہائی سکیورٹی کے ماحول میں تقریبا دو درجن گاڑیوں کے پروٹوکول ساتھ عدالت لایا گیا ہے۔
اس موقع پر اے ایف آئی سی سے خصوصی عدالت تک لایا گیا تقریبا اڑھائی ہزار پولیس اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔ آج منگل کے روز جب عدالتی کارروائی شروع ہوئی ہو تو وہ عدالتی حکم کے مطابق عدالت حاضر نہ تھے۔ جس پر عدالت نے ان کے وکلا کو آدھ گھنٹے کے اندر پیش کرنے کا حکم دیا۔
بعد ازاں انہیں عدالت میں پیش کر دیا گیا، تقریبا نصف گھنٹہ تک وہ عدالت کے احاطے میں رہے اور اس دوران کچھ دیر تک وہ عدالت کے سامنے خود کو ''سرنڈر'' کر دیا۔ گویا انہوں نے عدالتی بالاتری کو تسلیم کر لیا۔ وہ کچھ دیر کیلیے وہ عدالتی کٹہرے میں احتراما کھڑے رہے۔
عدالت نے عمومی امکان کے مطابق پرویز مشرف کیخلاف فرد جرم عاید نہیں کی گئی۔ اس سلسلے میں عدالت پہلے وکلاء صفائی کی طرف سے دائر کیے گئے اعتراضات کے بارے میں اس نتیجے پر پہنچے گی کہ آیا اس خصوصی عدالت کو اس مقدمے کی سماعت کا اختیار ہے یا نہیں اور اس کے بعد پرویز مشرف پر فرد جرم عاید کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنا ہو گا۔
عدالت نے اس مختصر سماعت کے بعد کارروائی کو جمعہ کے روز تک ملتوی کر دیا ہے۔ عدالت سے فراغت کے بعد پرویز مشرف دوبارہ امراض قلب کے فوجی ہسپتال روانہ ہو گئے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ اردو
إرسال تعليق