پاکستان کے وزیرِ اطلاعات پرویز رشید نے کہا ہے کہ حکومت خون خرابے کے بغیر امن حاصل کرنا چاہتی ہے لیکن پاکستان کے 90 ہزار قیدیوں کے ساتھ بھارت نے وہ سلوک نہیں کیا جو طالبان نے اپنی قید میں موجود پاکستانی فوجیوں کے ساتھ کیا ہے۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں وزیر اطلاعات نے کہا کہ ’کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد کو چاہیے تھا کہ اگر کوئی شکایت ہے تو اپنی بنائی گئی کمیٹی کے سامنے رکھتے لیکن انھوں نے ایسا نھیں کیا اور اچانک پہلے کراچی میں پولیس پر حملہ کیا اور پھر تین سال پہلے قید میں لیے گئے ایف سی اہلکاروں کو قتل کیا۔‘
انھوں نے کہا کہ حکومت کو بھی شکایتیں ہیں پہلے طالبان کو ہمارے سوالوں کا جواب دینا ہو گا۔
پرویز رشید 23 ایف سی اہلکاروں کی ہلاکت کے طریقہ کار پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ’ کیا طالبان نے اپنے قیدیوں کے ساتھ جو سلوک کیا وہ شریعت کے مطابق تھا؟‘
ان کا مزید کہنا تھا ’شریعت لانے والے جواب دیں گے کہ شریعت میں قیدی کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہیے اور کیا انھوں نے اپنے قیدیوں کےساتھ ویسا ہی سلوک کیا؟
پرویز رشید نے 1971 کی جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’بھارت نے، جو کہ ہمارا حریف ملک ہے ہمارے 90 ہزار قیدیوں کے ساتھ جینیوا معاہدے کے تحت سلوک روا رکھا۔‘
’دشمن ملک نے بھی آپ کے قیدیوں کو ویسے ہی رکھا جیسے بین القوامی سطح پر رکھا جاتا ہے کیا ان 90 ہزار قیدیوں میں سے کسی ایک کی بھی گردن بھارت نے کاٹی تھی؟‘
وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ حکومت کی بھی شکایتیں ہیں پہلے طالبان کو ان سوالوں کو جواب دینا ہوں گے۔
تاہم انھوں نے واضح کیا کہ طالبان سے نمٹنے کے لیے کسی کو بھی پاکستان کے دفاعی اداروں کی صلاحیتوں کے بارے میں غلط فہمی اور شک و شبہہ نہیں ہونا چاہیے۔
’قدرتی آفات ہوں یا سرحدوں کی حفاظت پاکستان کے دفاعی اداروں نے ہمیشہ بہترین نتائج حاصل کیے ہیں اور دنیا انھیں تسلیم کرتی ہے، اقوام متحدہ کی فوج میں پاکستانی فورسز کو سرفہرست رکھا جاتا ہے۔‘
شدت پسندوں کے خلاف ممکنہ آپریشن کے بارے میں سوال پر وزیر اطلاعات نے مستقبل قریب میں ایسی صورتحال کو خارج از امکان قرار دیتے ہوئے کہا کہ مزکراتی عمل کے لیے دو کمیٹیاں موجود ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ ’ہم منتظر ہیں جب ان (طالبان) کی جانب سے جواب آئے گا اور ہماری کمیٹی ہمیں آگاہ کرے گی تو ہی فیصلہ کیا جائے گا۔‘
إرسال تعليق