برطانیہ میں کیے گئے ایک مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ ماں جتنا زیادہ متحرک رہتی ہی اتنا ہیں اس کا بچہ جسمانی طور پر چست رہتا ہے۔
تاہم یہ مطالعے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بہت سی مائیں تجویز کردہ حد سے بہت کم ورزش کرتی ہیں۔
کیمبریج اور ساؤتھ ایمپٹن یونیورسٹیز کی تحقیق میں دل کی دھڑکن ماپنے والے آلے کی مدد سے سات دن کے دوران ماؤں اور بچوں کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا۔
مطالعے میں کہا گیا ہے کہ بچوں کی صحت سے متعلق پالیسیز کا مرکز مائیں ہونا چاہیئیں۔
اس مطالعے کے مطابق بچے قدرتی طور پر چست یا سست نہیں ہوتے بلکہ زندگی کے ابتدائی برسوں میں صحت مندانہ ورزش کی عادات بنانے میں والدین کا اہم کردار ہوتا ہے۔
مطالعے کے دوران چار برس کے 554 بچوں اور ان کی ماؤں کو سات دن تک ایک کم وزن والا دل کی دھڑکن ماپنے کا آلہ پہنایا گیا۔
شرکا نے اسے سات دل تک مسلسل پہنے رکھا حالانکہ سوتے ہوئے بھی اور پانی میں کی جانی والی سرگرمیوں کے دوران بھی۔
مطالعے میں شامل محقق کیتھرین ہیسکیتھ کا کہنا ہے کہ اعداد وشمار سے پتہ چلتا ہے کہ بچوں اور ان کی ماؤں کے درمیان جسمانی سرگرمیوں کے حوالے سے ایک براہ راست مثبت تعلق ہے۔
’جتنا زیادہ ماں متحرک ہوتی ہے اتنا ہی چست اس کا بچہ ہوتا ہے۔ گو کہ اس مطالعے سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ متحرک بچوں نے اپنی ماؤں کو اپنے پیچھے بھگائے رکھا تاہم یہ ضرور ہے کہ دونوں میں سے ایک کی حرکت نے دوسرے کو بھی متحرک رکھا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ایک ماں جتنا وقت متحرک رہتی ہے اس کا بچہ اس وقت کا دس فیصد تک اسی طرح کی سرگرمی میں متحرک رہتا ہے۔
یعنی اگر ایک ماں روزانہ ایک گھنٹہ زیادہ متحرک رہے تو اس کا بچہ روزانہ سے دس منٹ زیادہ دیر تک متحرک رہے گا۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ یہ معمولی فرق شاید زیادہ اہم نہ لگیں لیکن اگر انہیں مہینے اور برسوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ غیر معمولی ہو سکتے ہیں۔
مطالعے میں کہا گیا ہے کہ ایک عورت جب ماں بن جاتی ہے تو اس کی سرگرمیوں میں پہلے کی نسبت کمی آ جاتی ہے اور یہ دوبارہ کبھی پہلے جیسی نہیں ہو سکتیں۔
تحریک میں یہی کمی ان کے چھوٹے بچوں کو متاثر کرتی ہے۔
إرسال تعليق