پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم عورت فاؤنڈیشن کے مطابق رواں سال کے پہلے تین ماہ میں صوبہ پنجاب میں اِنسیسٹ ریپ یعنی محرم خواتین کے ساتھ ریپ کے چار گُنا زیادہ واقعات سامنے آئے ہیں۔
محرم خواتین کے ساتھ ریپ پر پاکستانی معاشرے میں بات تک نہیں کی جاتی اور بظاہر خواتین پر تشدد روکنے کا ذمہ دار نظام بھی ایسے مقدمات کو نظر انداز کرتا ہے۔
خواتین پر تشدد کے خاتمے کے لیے سرگرم تنظیموں کے مشترکہ پلیٹ فارم، ایواگ (اینڈِنگ وائلنس اگینسٹ ویمن اینڈ گرلز) کے زیرِ اہتمام اسلام آباد میں منگل کو ایک مباحثے کے دوران 18 سالہ ایک خاتون ’ن‘ کے مقدمے کا حوالہ دیا گیا۔
اسلام آباد کی ’ن‘ کے ساتھ سنہ 2006 میں مبینہ طور پر باپ نے ریپ کیا۔ ’ن‘ نے اپنا مقدمہ دارالامان میں رہتے ہوئے لڑا۔
مباحثے میں شریک اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر محسن کیانی کا خیال تھا کہ مقامی جج نے ’ایک باپ اپنی بیٹی کے ساتھ ایسا نہیں کر سکتا‘ کے مفروضے پر ملزم کو بری کر دیا۔ اُن کے بقول جج نے مقدمے کی کارروائی کے لوازمات تک پورے نہیں کیے۔
بی بی سی کو ٹیلی فون پر انٹرویو دیتے ہوئے لاہور میں عورت فاؤنڈیشن کے اہلکار عابد علی نے بتایا کہ صوبہ پنجاب میں یکم جنوری سے مارچ 2014 تک تین خواتین باپ، ایک خاتون بھائی، ایک انکل اور ایک خاتون اپنے سُسر کے ہاتھوں ریپ ہوئیں۔
’سنہ 2013 میں اِنسیسٹ ریپ کے 14 واقعات سامنے آئے جن میں سے تین پہلے چھ ماہ میں ہوئے۔ لیکن اِس سال کے پہلے تین ماہ میں چھ واقعات سامنے آ چُکے ہیں۔‘
عابد علی کے مطابق عورت فاؤنڈیشن 90 فیصد اعداد و شمار میڈیا پر آنے والی خبروں سے جمع کرتی ہے۔
اُنھوں نے بتایا کہ پنجاب میں گذشتہ تین ماہ میں خواتین پر مختلف نوعیت کے تشدد کے 1400 واقعات سامنے آئے جن میں 1512 خواتین متاثر ہوئیں۔
اُنھوں نے خواتین، خصوصاً نوجوان لڑکیوں کو یرغمال بنائے جانے کو پنجاب میں سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا۔
’2013 میں خواتین کو یرغمال بنائے جانے کے 1766 واقعات سامنے آئے جو 2012 کی نسبت 18 فیصد زیادہ تھے۔‘
حالیہ برسوں میں پاکستان میں خواتین کے حقوق کو یقینی بنانے کے لیے قرآن سے شادی، زبردستی کی شادی اور تیزاب پھینکنے جیسی کارروائیوں کو غیر قانونی قرار دیا گیا اور خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف قانون سازی ہوئی۔ شادی کی عمر مقرر کرنے کا بِل پارلیمان میں ہے۔ اِن قوانین کے باوجود خواتین پر تشدد کے واقعات سالہا سال بڑھ رہے ہیں۔
ایواگ کے اسلام آباد میں مباحثے میں سرکاری اور غیر سرکاری ماہرین میں اتفاقِ رائے تھا کہ اِن قوانین کے مثبت اثرات پیدا نہ ہونے کی بنیادی وجوہات عمل درآمد کے نظام کی کمزوریاں اور سماجی رویے ہیں۔
وکیل محسن کیانی کی رائے تھی کہ پولیس، وکلا اور عدلیہ تاحال 1979 کے حدود آرڈیننس کے سائے سے باہر نہیں نکل سکے۔
’جج محض گواہوں کے بیانات کی بنیاد پر فیصلے دیتے ہیں جبکہ واقعاتی شواہد یا ڈی این اے ٹیسٹ جیسے جدید طریقوں کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔‘
مباحثے میں مہرین مقصود نے بھی زمینی حقائق بیان کیے، جو وفاقی وزارتِ داخلہ کے ماتحت، خواتین کے خلاف جرائم کے متعلق ادارے جینڈر کرائم سیل کی ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں۔
اُنھوں نے بتایا کہ وہ چھ سال سے ادارے کے ساتھ ہیں۔ عملے کی تعداد 58 ہونی چاہیے لیکن دو سے زیادہ نہیں ہو سکی اور بعض اوقات وہ تن تنہا ہی ادارہ چلاتی ہیں۔
’(خواتین پر تشدد کے درج مقدمات) کے اعداد و شمار کے لیے جب ہم نے (تھانوں کو) فارم بھیجے تو سوارہ اور ونی جیسا کوئی واقعہ رپورٹ نہیں ہوا۔ پتہ چلا کہ اہلکاروں کو معلوم ہی نہیں کہ خواتین پر تشدد کے بارے میں کِن قوانین کے تحت، ایف آئی آر درج کرنی ہے۔‘
نئے قوانین پولیس کے تربیتی نصاب کا حصہ تو بن چکے ہیں لیکن اس سے صرف نئے بھرتی ہونے والے اہلکار مستفید ہو سکتے ہیں کیونکہ مہرین مقصود کے بقول ’بوڑھے محرروں‘ کا علم تازہ کرنے کا کوئی نظام نہیں۔
مباحثے میں اسلام آباد پولیس کی خاتون ایس پی نگہت حیدر نے مہرین مقصود سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ’عارضی اقدامات کے باعث تحقیقات میں کمی رہ جاتی ہے۔ جرائم کو ثابت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔‘
محسن کیانی کے مطابق فوجداری مقدمات میں شواہد اور ثبوت کی ذمہ داری استغاثہ پر ہوتی ہے تاکہ ملزم کو انصاف ملے۔ چونکہ ریپ کے مقدمات میں استغاثہ خود متاثرہ خاتون ہوتی ہے چنانچہ تفتیشی کوتاہیوں کا خمیازہ بھی اُسے بھگتنا پڑتا ہے۔
نظامِ عدل کے اِس نکتے کی بنیاد پر مباحثے میں شریک صحافی عدنان رحمت نے زور دیا کہ شعور کی بیداری کے لیے میڈیا کو خواتین کے حقوق کے مجموعی فریم ورک پر توجہ دینا ہو گی۔
عورت فاؤنڈیشن کے عابد علی نے بی بی سی کو بتایا کہ گذشتہ تین ماہ میں پنجاب سے خواتین کے ساتھ ریپ کے دو سو سے زائد واقعات میڈیا میں رپورٹ ہوئے۔ حکومتِ پنجاب اور عدلیہ صرف مظفر گڑھ کی ’آ‘ کے معاملے میں حرکت میں آئی اور وہ بھی تب جب ریپ کے بعد پولیس کے رویے سے تنگ آ کر اس نے سرِعام خود کو آگ لگا کر جان دے دی۔
اُدھر اسلام آباد کی ’ن‘ کے مقدمے کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے ایواگ کی جانب سے محسن کیانی نے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر رکھی ہے۔
اُنھوں نے مباحثے میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ اسلام آباد کی ’ن‘ کا مقدمہ بھی تکنیکی پیچیدگیوں کی نذر ہو سکتا ہے۔
’اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہائی کورٹ کے جج کو ’ن‘ کا ابتدائی بیان نامکمل لگا تو وہ اِسے دوبارہ ریکارڈ کرنے کا کہہ سکتا ہے۔‘
ایواگ کی شریک چیئرمین اقصیٰ خان کے مطابق 20 مارچ 2014 کو گردے ناکارہ ہو جانے کے باعث دارالامان میں ہی ’ن‘ کا انتقال ہو چکا ہے۔
إرسال تعليق