نوازحکومت بھی سابق جنرل کو سزا دلوانے پر اس طرح تلی ہوئی ہے کہ جیسے ایک شخص کے سزا پانے سے ملک میں ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی لیکن اگر ماضی پر نظر دوڑائی جائے تو محفوظ راستوں کی بھی مثالیں ملتی ہیں مگر اس محفوظ راستے پر میاں صاحب خود شش وپنج کا شکار ہیں اور پرویز مشرف کو راستہ دینے کے لیے نام ای سی ایل میں سے خود نکالنے کی بجائے گیند عدلیہ کی کورٹ میں ڈال دی ہے جبکہ عدلیہ بھی اس حوالے سے براہِ راست کوئی فیصلہ نہیں کر پارہی ہے۔
پرویز مشرف کے معاملے پر نوازشریف اپنی کابینہ کے کچھ ارکان کے سامنے بھی بے بس نظر آتے ہیں کیونکہ کابینہ اجلاس میں کچھ وزراء نے پرویز مشرف کے بجائے ملک میں موجود مسائل پر اپنی توانائی صرف کرنے کی تجویز دی مگر بعض ارکان نے پرویز مشرف کو محفوظ راستہ دینے کی سخت مخالف بھی کی ہے۔ اشارے یہ بتاتے ہیں کہ میاں نوازشریف سابق جنرل کو محفوظ راستہ دے کر وہ قرض اتارنا چاہتے ہیں جس کے وہ کئی سال پہلے مقروض ہوئے تھے مگر بعض ارکان کی مخالفت کے بعد اب وزیراعظم فیصلہ کرنے میں مشکل کا شکار ہیں اور جو وزراء مخالفت کررہے ہیں شاید ان کو گماں ہے کہ مشرف کو سزا ہوتے ہی ملک میں انقلاب آجائیگا۔ اداروں میں کرپشن ختم ہوجائے گی،اسٹیل مل اربوں کے منافع میں چلے گی اور دیگر تمام مسائل بھی ختم ہوجائیں گے اور ملک ایک جیتی جاگتی جنت بن جائے گا۔
إرسال تعليق