بی بی سی کے نمائندے امیتابھ بھٹا سالی نے بتایا کہ پہلے دن 10 لاشیں برآمد ہوئی تھیں، دوسرے دن 12 اور سنیچر کو مزید آٹھ لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔
اطلاعات کے مطابق ہلاک ہونے والے افراد بنگالی مسلمان تھے اور مبینہ طور پر انھیں بوڈو قبائلیوں نے نشانہ بنایا۔
سنیچر کی صبح باسکی ضلعے کے ناراین گڑی علاقے سے مزید آٹھ لاشیں ملی ہیں جن میں پانچ بچے اور خواتین شامل ہیں۔
کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے ان ہلاکتوں پر گہرے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے ان کی سخت مذمت کی۔
انھوں نے کہا: ’بھارت کی اکثریت لوگوں کو منقسم کرنے والی اور شدت پسند قوتوں کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دے گی۔‘
پولیس کے مطابق حملہ آوروں نے جمعرات کی رات ریاست کے کوکراجھار اور باسکا اضلاع میں دو مقامات پر اندھا دھند فائرنگ کی۔
بھارتی میڈیا میں یہ اطلاعات ہیں کہ یہ حملے 24 اپریل کی پولنگ کا نتیجہ ہیں۔
زخمیوں کا ہسپتال میں علاج جاری ہے
یہ دونوں علاقے بوڈولینڈ علاقائی کونسل (بی ٹی سی) میں شامل ہیں، جہاں دو برس پہلے بھی بوڈو قبائلیوں اور بنگالی مسلمانوں کے درمیان بڑے پیمانے پر فسادات ہوئے تھے۔
بھارتی خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کےمطابق حکومت نے متاثرہ علاقے میں گشت کے لیے فوج کی مدد حاصل کر لی ہے اور مرکز سے نیم فوجی دستوں کی دس کمپنیاں بھی طلب کی گئی ہیں جبکہ علاقے میں کرفیو لگا دیا گیا ہے۔
بوڈو قبائلیوں کا الزام ہے کہ سرحد پار بنگلہ دیش سے آنے والے مسلمان غیر قانونی طور پر اس علاقے میں آباد ہوگئے ہیں۔ یہ علاقہ بھوٹان کی سرحد کے قریب واقع ہے۔
بنگلہ دیش سے آ کر ہندوستان میں بسنے والے لوگوں کا مسئلہ اس الیکشن میں بھی اہم انتخابی موضوع رہا ہے اور وزارت عظمیٰ کے لیے بی جے پی کے امیدوار نریندر مودی نے چند روز قبل مغربی بنگال میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ 16 مئی کو انتخابی نتائج کا اعلان ہونے کے بعد غیر قانونی تارکین وطن کو واپس بھیج دیا جائے گا۔
اضافی نیم فوجی دستے علاقے میں امن و امان بحال کرنے کے لیے بلا لیے گئے ہیں
پولیس کا دعویٰ ہے کہ تشدد کےان واقعات کا پارلیمانی انتخابات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس علاقے میں 24 اپریل کو ووٹ ڈالے گئے تھے جس میں ایک قبائلی اور ایک غیر قبائلی امیدوار کے درمیان سخت مقابلہ ہوا۔
آسام پولیس کےسربراہ ایل آر بشنوئی کے مطابق جمعرات کی شام تقریباً سات بجے پہلے واقعے میں تین افراد ہلاک ہوئے، جبکہ کوکراجھار میں حملہ آدھی رات کے قریب کیا گیا اور اس میں سات لوگ مارے گئے۔
پولیس کے مطابق دونوں حملوں میں اے کے سیریز کی رائفلیں استعمال کی گئیں اور حملہ آوروں کا تعلق نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ آف بوڈو لینڈ سے بتایا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ سنہ 2012 میں آسام میں بوڈو قبائل اور مسلمانوں کے درمیان خوں ریز تصادم ہوئے تھے جن میں 100 سے زیادہ افراد مارے گئے تھے اور لاکھوں افراد بے گھر ہوئے تھے۔ مرنے والوں اور بے گھر ہونے والوں میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔
إرسال تعليق