’جاؤ جا کر ڈھونڈو کہیں درخت پر لٹکی مل جائیں گی‘

بی بی سی اردو:  لڑکیاں منگل کی شام اپنے گھر سے غائب ہوئی تھیں اور ان کی لاشیں بدھ کی صبح آم کے ایک پیڑ سے لٹکی ہوئی ملیں



’جب ہم پولیس کے پاس پہنچے تو سب سے پہلے انھوں نے ہماری ذات پوچھی، ذات بتانے پر نیچے کھڑا رہنے کے لیے کہہ دیا۔ گندی گندی گالیاں دے کر ہمارا مذاق اڑانے لگے۔ دو گھنٹے کی منت سماجت کے بعد وہ چارپائی سے اٹھے۔ مجھے کئی بار ان کے پیر چھونے پڑے۔‘

یہ کہنا ہے بھارت کی شمالی ریاست اترپریش کے بدایوں ضلع میں اجتماعی زیادتی کے بعد قتل کی جانے والی دو لڑکیوں میں سے ایک کے والد کا۔

ضلع کے کٹرا شہادت گنج گاؤں میں پولیس کے خلاف بہت غصہ ہے۔ متاثرہ خاندانوں کو لگتا ہے کہ اگر پولیس ان کی مدد کرتی تو ان کی بیٹیاں بچ سکتی تھیں۔

متاثرین کا الزام ہے کہ ملزم اور پولیس والے ایک ہی ذات کے تھے اس لیے پولیس نے ملزمان کی ہی مدد کی۔

ایک مقتولہ کے والد کہتے ہیں ’سپاہی سرویش یادو نے گاؤں جا کر ملزمان کو بھگانے میں مدد کی۔ لیکن ایک ملزم کو میں نے پکڑ لیا تھا۔ پولیس کی پوچھ گچھ میں اس نے اعتراف کیا تھا کہ لڑکیاں اس کے گھر پر ہیں۔ اس کے باوجود لڑکیوں کو برآمد کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے سپاہی سرویش نے کہا کہ دو گھنٹے بعد تمہاری لڑکیاں مل جائیں گی۔‘


انھوں نے مزید کہا ’دو گھنٹے گذر گئے لیکن لڑکیاں نہیں ملیں۔ پولیس سے پھر پوچھا تو کہا کہ لڑکیاں نہیں ہیں جاؤ جا کر ڈھونڈو کہیں درخت پر لٹکی مل جائیں گی۔‘

انھوں نے الزام لگایا کہ بچیوں کی لاش ملنے کے بعد بھی پولیس نے متاثرہ خاندان کی کوئی مدد نہیں کی۔

’پولیس نے ہماری مدد کرنے کے بجائے ملزمان کی ہی مدد کی۔ ہماری بیٹیاں چار بجے تک درخت پر لٹکی رہیں۔ اس کے بعد ہی پولیس نے ہماری کوئی بات سنی۔‘

متاثرہ خاندان اب معاملے کی سی بی آئی جانچ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لڑکی کے والد کہتے ہیں ’ہمیں یہاں کی پولیس پر کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ ہماری بیٹیوں کی لاشیں درخت سے لٹکی رہیں اور ملزم کھلے گھومتے رہے۔‘

واضح رہے کہ پولیس کے مطابق پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ان لڑکیوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی اور انھیں لٹکا کر پھانسی دینے سے موت واقعہ ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔

لڑکیوں کی عمر 14 اور 15 سال تھی اور وہ رشتے کی بہنیں تھیں۔ ان کا تعلق ایک ایسے طبقے سے بتایا جاتا ہے جنھیں نچلی ذات سے کہا جاتا ہے۔

مبصرین کا خیال ہے کہ بھارت میں ریپ کے واقعات کی روک تھام کے لیے قوانین سخت کیے گئے ہیں تاہم اس میں کمی نظر نہیں آ رہی ہے۔

واضح رہے کہ دسمبر سنہ 2012 میں دارالحکومت دہلی میں ایک چلتی بس میں اجتماعی ریپ کے واقعے میں ایک طالبہ کی موت کے بعد ملک بھر میں زبردست احتجاج کیا گیا تھا اور اسی کے نتیجے میں اس وقت موجود قانون میں مزید سختی کی گئی تھی۔

Post a Comment

أحدث أقدم