میاں تجمل سے میری واقفیت چند دہائیوں سے ہے۔وہ ایک کاروباری شخص ہے۔لاہور میں بیدیاں روڈ پر اس کا گیارہ ایکڑ کا گھر ہے۔کاروبار پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔لیکن ان تمام معاملات میں کوئی بھی ایسی بات نہیں، جس کی بنیاد پر میں کہہ سکوں کہ تجمل ایک حیرت انگیز انسان ہے۔میں 1984میں میو اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں ڈیوٹی کررہاتھا۔گیارہ بجے کے قریب ایک شخص شدیدزخمی حالت میں لایاگیا۔اسے کار نے کچل دیا تھا۔
تجمل اسے اسپتال خود لے کر آیاتھا۔اس کا اس سے دور کا بھی تعلق نہیں تھا۔اس نے اس زخمی کے لیے ہر وہ کام کیا جو عزیز یا رشتہ دار کرتے ہیں۔مریض ایک ماہ اسپتال رہا۔ہر روز تجمل یا اس کا کوئی ملازم تیمارداری کے لیے ایسٹ سرجیکل وارڈ آتاتھا۔وہ روزانہ پورے وارڈ کے مریضوں کے لیے کھانا لاتے تھے۔جس دن مریض کو چھٹی ملنی تھی،اس دن تجمل آیا۔اس نے بڑی خاموشی سے اسے دس ہزار روپے دیے اور میرے پاس کرسی پر بیٹھ گیا۔یہ اس محیرالعقول آدمی سے میری پہلی ملاقات تھی۔
تجمل کوئٹہ کا رہنے والاہے۔غربت میں آنکھ کھولی۔بچپن میں اس نے دودھ دہی کی دکان پر کڑھایاں مانجھنی شروع کر دیں۔پھر وہ کوئلہ کے ایک ٹرک پر مزدوری کرنے لگ گیا۔تین چار سال میں کوئلے کے کام کی سمجھ آگئی۔کراچی کے ایک کاروباری ادارے کو اپنے پلانٹ کے لیے کوئلہ کی شدید ضرورت تھی۔تجمل نے ان سے پہلا کاروبار کیا۔وہ وقت سے دس گھنٹے پہلے کوئلہ پہنچا دیتا تھا۔ ایمانداری اوروقت کی پابندی نے اسے بہت مالی فائدہ پہنچایا۔وہ سات آٹھ برس میں کروڑ پتی ہوگیا۔پھر وہ لاہور آگیا۔
یہاں اس نے کپڑے کا کارخانہ لگایا جوکئی کارخانوں میں تبدیل ہوگیا۔مگر تجمل کو صرف ایک شوق تھا اوروہ تھا اپنے پیسے سے عام لوگوں کو سہولتیں مہیا کرنا!میری اس سے دوستی بڑھتی گئی۔اس کے پاس ذاتی استعمال کے لیے مرسیڈیز ہے اورایک چھوٹی سی سوزوکی بھی،مگر اس کے گھر کے گیراج میں ایک بہت پرانی اسٹیشن ویگن کھڑی ہے اور وہی اس کے لیے سب سے کار آمد گاڑی ہے۔یہ پرانی ویگن ہر وقت اس کی گاڑی کے پیچھے چلتی ہے۔تجمل اپنے سفر کے لیے سوزوکی استعمال کرتاہے۔
ایک دن اس نے مجھے کہا کہ جھنگ چلنا ہے۔اس نے کوئی عمارت دیکھنی تھی اورکسی قریبی عزیز کی شادی بھی تھی۔میں اوروہ جھنگ پہنچ گئے۔بلکہ شہر سے آگے نکل آئے۔میں حیران تھا کہ وہ کونسی فیکٹری کی عمارت ہے جسے تجمل دیکھنا چاہتا ہے۔اٹھارہ ہزاری کے قریب ایک پرائمری اسکول تھا۔ہم وہاں رک گئے۔تجمل نے چوکیدار کو کہا کہ وہ اسکول کے اندر جانا چاہتا ہے۔چوکیدار کہنے لگا کہ اتوار کو تو اسکول بند ہے اوروہ گیٹ نہیں کھول سکتا۔اسٹیشن ویگن سے تجمل کے عملہ نے چوکیدار کے کان میں کچھ کہا۔وہ چوکیدار بھاگ کرگیا۔گیٹ کھولا اورہم اندر چلے گئے۔
اس اسکول کی چاردیواری،عمارت کی نئی چھتیں،باتھ روم اورپلاسٹک کافرنیچر تمام تجمل نے بنوا کردیاتھا۔اسکول کے کونے میں اس نے دوہینڈ پمپ بھی لگوائے تھے۔جب ہم واپس مڑے تو چوکیدار کی آنکھوں میں آنسو تھے۔تجمل نے اپنے عملے کو اشارہ کیا۔وہ اسٹیشن ویگن سے پانچ تھیلے نکال کرلائے۔یہ ایک ماہ کا راشن تھا۔ہم واپس چل پڑے۔میں حیران ہونا شروع ہوگیا۔کسی کو پتہ نہیں تھا کہ اسکول کی یہ حالت کس نے بدلی ہے۔وہ اس طرح کے درجنوں اسکول ٹھیک کرچکاہے۔
واپسی پر جھنگ سے فیصل آباد روڈ پر نیا لاہور ایک کافی بڑا قصبہ ہے۔اس قصبہ سے متصل ایک گائوں میں شادی کی ایک بالکل عام سی تقریب ہورہی تھی۔ہم سارے شدید گرمی میں چارپائیوں پر بیٹھ گئے۔غریب آدمی کی کیا شادی ہوگی!بارات آئی۔رخصتی ہوئی۔اس کے بعد میرے سامنے لڑکی کے والد نے تجمل کے پیر پکڑ لیے۔یہ بہت مشکل مرحلہ تھا اوربہت جذباتی بھی۔میں خاموش رہا۔یہ شخص تجمل کی فیکٹری میں ایک ملازم کا باپ تھا۔وہ ورکر ایک ٹریفک حادثہ میں چھ سال پہلے ہلاک ہوگیاتھا۔
اس کے انتقال کے بعد اس خاندان کی تمام کفالت تجمل خود کرتاتھا۔شادی کے تمام اخراجات اسی نے کیے تھے۔اس نے ان لوگوں کو بتایا ہوا تھا کہ یہ سارے پیسے دراصل حکومت دیتی ہے،وہ صرف ان کو ڈاکیہ کی طرح پہنچادیتا ہے۔ ہم سب کو پتہ تھا کہ وہ جھوٹ بول رہاہے۔وہ کسی کو بتاناہی نہیں چاہتا کہ وہ کوئی نیک کام کررہاہے۔میں اس نیک شخص کے اخلاص کے سامنے پانی میں نمک کی طرح گھلناشروع ہوگیا۔
لاہور میں گنگارام اسپتال میں بچوں کاکینسر وارڈ ہے۔یہ ایک سرکاری ادارہ ہے۔اس کی حالت اتنی خستہ ہے کہ شائد بیان نہ کی جاسکے۔پچھلے مہینہ تجمل میرے پاس آیا اورمجھے اس کینسر وارڈ میں لے گیا۔ اتفاق سے میراایک غیر ملکی دوست بھی میرے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ہم سارے انتقال خون کے اس چھوٹے سے یونٹ میں چلے گئے۔اندر قیامت کا نظارہ تھا۔معصوم بچے اپنا خون تبدیل کروارہے تھے۔ایک ایک بیڈ پر چارچار معصوم پھول لیٹے ہوئے تھے۔
درجنوں بچے برآمدے میں فرش پر لیٹے تھے۔خون کی تھیلی کے اسٹینڈ کم ہونے کی وجہ سے کئی بچوں نے تھیلیاں اپنے ایک ہاتھ سے اونچی کررکھی تھیں۔تجمل نے اسٹیشن ویگن سے بسکٹ، فروٹ، ٹافیاں،نئے کپڑے، کھلونے اورجوس کے سیکڑوں ڈبے نکلوائے۔وہ یہ تمام چیزیں خود تقسیم کرنے لگ گیا۔تقریباًایک گھنٹے کے بعد ہم لوگ وارڈ سے باہر نکلے۔میں بالکل خاموش تھا۔میری زبان کی تالہ بندی ہوچکی تھی۔میرا غیر ملکی دوست وارڈ سے باہر نکل کر دھاڑے مار مار کر رونے لگا۔وہ بیس پچیس منٹ زاروقطار روتا رہا۔مجھے قطعاًعلم نہیں تھا کہ تجمل اوراس کا عملہ ہر ہفتہ یہاں آکر بغیر کسی کو بتائے ہوئے یہ خدمت عرصے سے کررہا ہے۔
اپنے عالی شان گھر میں تجمل بہت سادہ طریقے سے رہتا ہے۔اس کا کمرہ علیحدہ ہے۔اس میں اے سی نہیں لگا ہوا۔چند ٹیلیفون لگے ہوئے ہیں۔اس کے گھر میں ملازم غیر ملکی ہیں۔اکثر کا تعلق فلپائن سے ہے۔مگر وہ اپنا ذاتی کام خود کرتا ہے۔دن میں وہ چھ گھنٹے کاروبار کرتا ہے۔یہ وہ وقت ہے جب وہ مشین بن جاتا ہے۔کروڑوںاوراربوں کے سودے کرتا ہے۔باقی تمام وقت وہ اپنا نام بتائے بغیر عام لوگوں کو آسانیاں فراہم کرنے میں صرف کرتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ اس کے پیسے پر اصل حق ان غریب لوگوں کاہے جن کو پیسے کی ضرورت ہے۔وہ جتنا خرچ کرتا ہے،اس کے بقول وہ پیسہ خدا اسے دوگنا کرکے لوٹا دیتا ہے۔
زاہد گوجرنوالہ میں بائی پاس کے نزدیک رہتاہے۔خدا کے فضل سے اس کا گھر بہت وسیع اوردیدہ زیب ہے۔مگر زاہد کا دل اپنے گھر سے زیادہ وسیع ہے۔وہ ایک عجیب وغریب انسان ہے۔انتہائی خوبصورت ڈریس میں ملبوس یہ شخص دراصل ایک درویش ہے۔آپ کسی خلق خدا کے کام کا ذکر کرے۔ پتہ چلے گا کہ زاہد تو پہلے سے ہی یہ کام بغیر کسی صلہ کے کیے جارہاہے۔میری اس سے دوستی گجرانوالہ کی پوسٹنگ کے دوران ہوئی۔ زاہد نے اپنا گھر سماجی کاموں کے لیے وقف کیا ہواہے۔غریب لوگوں کی سہولت کے لیے اجتماعی شادیاں اس مردِ عجیب نے گجرانوالہ میں شروع کیں۔وہ اوران کی اہلیہ مل کر ان بچیوں کا جہیز بناتے ہیں۔ کسی سے امداد لیے بغیر یہ اپنی ذاتی گرہ سے کھانے کا خرچہ اٹھاتے ہیں اوران کی رخصتی کرتے ہیں۔ایک دن سخت دھوپ میں لاہور آرہا تھا۔
گجرانوالہ سے چند کلو میٹر باہر میں نے دیکھا کہ زاہد اورکچھ لڑکے سڑک کے ساتھ ساتھ پودے لگارہے ہیں۔چندلڑکے گھاس پھوس اکٹھا کررہے ہیں اورمیدان کی صفائی کررہے ہیں۔وہ اب تک اپنے شہر میں ہزاروں پودے لگاچکا ہے۔وہ اسپتال میں غریب مریضوں کے لیے مفت دوایاں فراہم کرتاہے۔اس کے گھر کا ایک کمرہ ایک ادبی بیٹھک ہے۔ملک بھر کے شاعر،ادیب اورلکھاری وہاں جمع ہوتے ہیں۔وہاں ان تمام لوگوں سے ادبی مکالمہ ہوتا ہے اورہر ہفتہ کوئی نہ کوئی رونق لگی رہتی ہے۔حسن نثار سے میری ملاقات زاہد کی وساطت سے ہوئی تھی۔ یہ عجیب شخص اپنے آپ کو دوسروں کی خدمت کے لیے وقف کرچکا ہے۔
ہمارے بنجر حکمران جھوٹ کے لباس میں ملبوس طمع کے گھوڑے پر سوار ہیں۔یہ ادنیٰ سے ادنیٰ مسئلہ حل کرنے میں بھی ناکام نظر آتے ہیں۔ تمام کام جو ان کے فرائض ہیں، وہ ان کو احسان بنا کرپیش کرتے ہیں۔اشتہاروں کے ذریعے مجبور کرتے ہیںکہ ہم ان لوگوں کا شکریہ ادا کریں!میں جب ان کی عامیانہ حرکتیں دیکھ کر مایوس ہونے لگتا ہوں تو میرے ذہن میں زاہد اورتجمل آجاتے ہیں۔دکھ کم ہو جاتاہے!ہماری اصل طاقت ہمارے یہی درویش لوگ ہیں جو بغیر کسی صلہ اورشہرت کے عام لوگوں میں آسانیاں تقسیم کررہے ہیں!اس لیے اب میں بالکل مایوس نہیں ہوں!
اشاعت روزنامہ ایکسپریس 1 جون 2014
إرسال تعليق