اسلام آباد : امیدواروں کے انٹرویو، کوائف نامہ کی تیاری، خاندان کی تفصیلات
دوست احباب اور مالی حیثیت یہ سب معلومات کسی نوکری کیلئے نہیں بلکہ خودکش بمبار بنانے کے لئے جمع کی جاتی تھیں۔
قواعد و ضوابط بہت سخت ہیں کیونکہ انعام میں جنت ملنی ہے، دنیا میں جنت کی ضمانت صرف یہاں ہی ملتی ہے لیکن اسکے لیئے خود کو بم بنا کر چیتھڑوں میں تبدیل کرنا ہوتا ہے، اور اپنے ساتھ کئی بے گناہوں کو قتل کر ڈالنا ہوتا۔ ادھر آنے کا سفر بہت لمبا ہے، یہاں افغانستان، محسود علاقوں کے علاوہ مہمند اور اورکزئی سے بھی فدائی لائے جاتے ہیں۔
شمالی وزیرستان کے علاقےمیرام شاہ کی ایک چھوٹی سی بستی درپا خیل میں حقانی نیٹ ورک کے زیر انتظام چلنے والے اس مرکز استشہاد میں ،خود کش بمبار تیار کیئے جاتے ہیں۔ آپریشن ضرب عضب کے دوران جب اس عمارت پر فورسز کا قبضہ ہوا تو حیرت انگیز انکشافات ہوئے، مرکز استشہاد بظاہر ایک عام سی عمارت تھی جس کے بارے میں شائد پڑوسیوں کو بھی معلوم نہ ہو، لیکن یہاں دہشت گردی
کے سب سے بڑے نیٹ ورک کا مرکز تھا۔
سرائے درپہ خیل میں کہتے ہیں اس جیسے پانچ ٹریننگ سینٹرز تھے جہاں معصوم
ذہنوں کو خود کش بنایا جاتا تھا، یہاں لائے جانے والوں کو دوماہ مرکز کے اندر گزارنے ہوتے تھے،، ایسے مراکز مرکزی میرام شاہ بازار میں واقع گرلز اسکول میں بھی قائم تھا۔
مرکز استشہاد میں آنے والے ہر مبینہ جنتی کو سات بنیادی اصولوں کی پابندی کرنی ہوتی تھی ، مرکز کے باہر قدم نہیں رکھنا ،کسی سے رابطہ نہیں کرنا، موبائیل فون پر پابندی ، مرکز کے اندر بھی کسی سے غیر ضروری بات نہیں کرنی، صرف اپنے مقصد کے بارے میں سوچنا ، اصولوں کی ہر صورت پابندی اور انکار کرنے پر موت آپ کا مقدر بنتی ہے۔
مبینہ فدائیوں کو مرکز آنے کیلیے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، مگر آنے کے بعد کسی سے ملنے کی اجازت نہیں ہوتی تھے ، والدین سے بھی نہیں، مرکز پر ایک رجسٹر موجود ہے جس میں ان سب کے نام اور عرفیت درج ہے، جو یہاں سے آگے جاچکے ہیں، اتنے آگے جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ سماء ٹی وی
إرسال تعليق