بی سی اردو ڈاٹ کام، دہلی
بھارت میں سکولوں میں سیکس کی تعلیم کے خلاف ایک بار پھر باتیں ہونے لگی ہیں
جب سے انڈیا کے نئے وزیرِ صحت ہرش وردھن نے سکولوں میں سیکس کی تعلیم پر پابندی کی وکالت کی ہے کچھ پرانے زخم ہیں جو پھر سے ہرے ہوگئے ہیں۔
صرف 10 سال پہلے تک، جب ملک میں بی جے پی کی حکومت تھی، ٹی وی چینلوں پر کونڈم کے اشتہارات دکھانے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ اب پھر بی جے پی اقتدار میں ہے اور پھر سماجی اقدار، روایات اور ہندوستانی تہذیب پر بحث شروع ہوگئی ہے۔
اور اس کی جھلک انٹرنیٹ پر سب سے زیادہ نظر آرہی ہے جہاں آج کل زیادہ تر جواں سال بچے سیکس کی اگر باقاعدہ تعلیم نہیں تو ’ورکنگ نالج‘ ضرور حاصل کرتے ہیں۔
نوجوانوں کی نبض کا اندازہ ٹوئٹر سے لگایا جاسکتا ہے جہاں وہ کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔ کسی نے لکھا ہے کہ ’ہندوستانیوں کو سیکس کی تعلیم کی ضرورت نہیں ہے، انھیں سیکس اور تعلیم کی ضرورت ہے۔‘
کسی اور کا کہنا ہے کہ ’مسٹر ہرش وردھن سیکس کی تعلیم پر پابندی لگانےکے علاوہ یوگا لازمی کرنا چاہتے ہیں، جو لوگ اس کے حق میں ہیں، اپنا دایاں پیر اوپر اٹھائیں!‘
ٹی وی پر آجکل ایک اشتہار دکھایا جارہا ہے جس پر شاید ہرش وردھن کی نظر نہیں پڑی ہے۔ ایک باپ اپنے 14-13 سال کے بیٹے سے(انگریزی میں) پوچھتا ہے، بیٹے اب تم بڑے ہو رہے ہو، مجھے لگتا ہے کہ اب تم سے لڑکیوں کے بارے میں بات کرنے کا وقت آگیا ہے۔ بیٹا باپ کی طرف دیکھتے ہوئے کہتا ہے: ’بالکل ڈیڈی، بتائیے آپ کیا جاننا چاہتے ہیں؟‘
ہرش وردھن وزیر صحت ہیں جبکہ تعلیم کی وزیر سمرتی ایرانی ہیں
ہرش وردھن کے لیے شاید پیغام یہ ہے کہ وہ زمانہ اب جاچکا جب ہندی فلموں میں پھول سے پھول ٹکراتے تھے اور اگلے شاٹ میں ہیروئن کی گود میں ایک کھلکھلاتا ہوا بچہ نظر آتا تھا۔
ایک ممکنہ حل یہ ہے کہ سیکس کی تعلیم پر پابندی کے لیے سیکس، تعلیم اور انٹرنیٹ تینوں پر پابندی لگا دی جائے۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ جو لوگ اس تجویز کے حق میں ہیں، اپنا دایاں پیر اوپر اٹھائیں۔
کانگریس کے ساتھ نہ ہندو نہ مسلمان؟
کانگریس کی مشکلات ہیں کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہیں۔ پارلیمانی انتخابات میں شکست کے بعد باقی دنیا تو سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کو مشورے دے ہی رہی تھی، اب خود اس کے دو سب سے سینیئر رہنماؤں نے کشتی میں ایک اور سراخ کر دیا ہے۔
سابق وزیر دفاع اے کے اینٹونی کا کہنا ہے کہ پارٹی کی اقلیت نواز شبیہہ سے اسے نقصان ہوا ہے کیونکہ ہندؤں میں عام تاثر یہ ہے کہ سیکولرزم کے نام پر وہ اقلیتوں کی جانب زیادہ جھکی ہوئی ہے۔
راہل گاندھی کانگریس کے دور میں بھی حکومت کی ذمے داریوں سے بچتے رہے
اور مسلمانوں کا خیال ہے کہ زبانی جمع خرچ کے علاوہ کانگریس نے ان کے لیے کچھ نہیں کیا۔
اور اب سینیئر رہنما دگ وجے سنگھ نے کہا ہے کہ راہل گاندھی کو لوک سبھا میں حزب اختلاف کی ذمہ داری سنبھالنی چاہیے تھی، در اصل وہ ’حکمراں مزاج کی شخصیت کے مالک نہیں ہیں۔۔۔ وہ ناانصافی کے خلاف لڑنا چاہتے ہیں۔‘
لیکن راہل بھی آسانی سے اشاروں کی زبان نہیں سمجھتے۔ سب سے پہلا سوال تو یہ ہی ہے کہ جب گذشتہ 10 برسوں سے ملک میں کانگریس کی حکومت تھی تو کیا وہ اپنی ہی حکومت کی ناانصافیوں کے خلاف لڑ رہے ہیں؟ کیا حکومت اسی لیے ناانصافی کر رہی تھی کہ کہیں وہ وزیر اعظم بننے کے بارے میں نہ سوچنے لگیں؟
اگر نہ ہندو خوش ہیں اور نہ مسلمان اور نہ پارٹی کے لیڈر، تو مسئلے کا حل کیا ہے؟
شاید وہ ڈاکٹر ہرش وردھن سے کچھ سبق سیکھ سکتے ہیں۔
راہل جب بیرون ملک سے چھٹی منا کر لوٹیں تو انھیں ملک میں ناانصافی پر پابندی لگا دینی چاہیے، پھر راہل ناانصافی کے خاتمے پر وقت برباد کرنے کے بجائے سیاست کے لیے وقت نکال سکیں گے!
إرسال تعليق