ہوس کے نام پہ ظالم سماج مانگے ہے
مرے بدن سے لہو کا خراج مانگے ہے
مری زبان کو تم کاٹ کیوں نہیں دیتے
تمہارے عہد میں تم سے اناج مانگے ہے
مکان قرق، زمیں ضبط، فصل پر ڈگری
یہ قرض خواہ ابھی مجھ سے بیاج مانگے ہے
چمن پرست نگاہیں چمن بدر ہیں سبھی
کلی کلی کا بدن سامراج مانگے ہے
حصارِ شہر کی اینٹیں اُکھاڑ کے رکھ دو
کُھلی فضا مرا سرکش مزاج مانگے ہے
جو کھیلتا ہی رہا عمر بھر کھلونوں سے
وہ ضدّی طفل بھی اب تخت و تاج مانگے ہے
بخش لائلپوری
إرسال تعليق