پاکستان تحریکِ انصاف کے شاہرائے دستور پر دھرنے میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جوش سے رقص کرتے ہیں تو جمعیت علمائے اسلام کے مولوی، جن کی قیادت پاکستانی سیاست کے جادوگر، مولانا فضل الرحمن، جو ہر حکومت میں شامل ہونے کا گرُ جانتے ہیں، کے ہاتھ ہے، غصے سے آگ بگولہ ہو جاتے ہیں۔ کیا یہ مولانا حضرات بتا سکتے ہیں کہ اس کے علاوہ نوجوان لوگ کیا کریں؟ کیا وہ خود کش حملے کرنے کی کلاسز اٹینڈ کریں؟ کیا وہ یہ سیکھیں کہ سیاہ ڈیزل کے پرمٹ کو کس طرح چمکدار سونے میں بدلا جاتا ہے؟
ہمارا واسطہ کس قسم کی منافقت سے پڑا ہے؟ بدقسمتی سے ایک ٹی وی ٹاک شو میں تھا تو اسی جماعت کے سینیٹر حافظ حمداﷲ نے پی ٹی آئی کی ریلی کو نائٹ کلب قرار دیا۔ میںنے حیرت سے ان کی طرف دیکھ کر پوچھا کہ کیا مولانا کو پتہ ہے کہ ایک نائٹ کلب میں کیا ہوتا ہے، کیا اُنھوںنے کبھی وہاں قدم رنجہ فرمایا؟ یا پھربقول لسان العصر حضرت اکبر الہ آبادی: ’’ناتجربہ کاری سے واعظ کی یہ باتیں ہیں... اس رنگ کو کیا جانے، پوچھو جو کبھی۔۔۔‘‘۔ جواب ندارد، مولانا فضل الرحمٰن نے دھرنے کو ’’مغربی یلغار‘‘ قرار دے دیا۔ ان سے پہلے کسی اور رہنما کو ناتجربہ کاری، یا بچپنے کی بنا کر اس دھرنے میں ایسی کوئی بات دکھائی نہیں دی تھی، لیکن مولانا اور ناتجربے کاری؟
دراصل مولانا کا مسلۂ صاف ظاہر ہے۔ خیبر پختونخوا میں اب عمران خان کی پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ یہاں کبھی مولانا نے بہت اچھا وقت گزارا تھا۔ اب تو وہ بہار کے دن روٹھ چکے ہیں، اس لیے ان کا قہرآلود غصہ بجا۔ رویتِ ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمٰن، جو دوربین کے ایک سرے پر آنکھ جمائے کوئی ساڑھے تین لاکھ کلومیٹر دور ایک اور موہوم اور شرمیلے سے چاند کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو قوم اس کاوش کو تفریح سمجھتی ہے، نے بھی پی ٹی آئی کے د ھرنے پر چاندماری کی۔ بالکل ٹھیک ہوا۔ اگروہ بھی پی ٹی آئی کی حمایت میں آجاتے تو پریشانی کی بات تھی۔
ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کوئی مولوی بھی مرد و زن کو تفریح کرتے، جشن مناتے اور رقص کرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا ہے... تاہم دیکھے بغیر تنقید بھی نہیں ہو سکتی۔ ان علماء کی زنبیل میں رقص و موسیقی نہیں، آگ ، سزا اور تکفیر ہے۔ اُنہیں عورتوں کے حوالے سے بھی کچھ مسائل ہیں۔ ان مسائل کا تعلق اُن کی مذہبی سوچ اور انہی خطوط پر حاصل کیے گئے علم سے ہے۔ وہ خواتین کو گھروں میں بند رکھنا چاہتے ہیں، اس لئے ان خواتین کی آزادی علماء کے لئے ڈرائونا خواب بن چکی ہے۔ یہ صرف پی ٹی آئی کے جلسے ہی نہیں جنہیں دیکھ کر انہیں آگ لگ جاتی ہے، ان کے نزدیک ہی پاکستان عوامی تحریک کا بہت بڑا دھرنا ہے، جس میں عورتیں اور نوجوان لڑکیاں ایک بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ پی ٹی آئی کے کارکن دن کو کہیں چلے جاتے ہیں لیکن شام ہوتے ہی پنڈال سجنے لگتا ہے، رونق بڑھ جاتی ہے اور جوش سے فضا رنگین ہو جاتی ہے۔ دوسری طرف پی اے ٹی کے کارکن وہیں بیٹھے رہتے ہیں اور ان کی حالت بہت خراب ہو چکی ہے۔ تاہم وہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی ہدایت کے مطابق نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب بھی اپنی تقاریر میں مرد وزن کی مساوات، حتی کہ اقلیتوں کے حقوق کی بھی بات کرتے ہیں۔
پاکستان کے روایتی مذہبی طبقے، جیسا کہ مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت، کے لئے یہ بات ناقابلِ برداشت ہے۔ ان کے تنگ نظر عقید ے سے اس فرخ دلی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اس میں کوئی جائے حیرت نہیں اگر انتہا پسند گروہ عمران خان اور علامہ طاہر القادری کے خلاف عزائم رکھتے ہیں۔ یہاں یہ بات تسلیم کی جانی چاہئے کہ اپنے نئے امیر، سراج الحق کی قیادت میں جماعتِ اسلامی اس بحران میں نسبتاً بہتر روپ میں دکھائی دی ۔ اس نے کم از کم مولانا فضل الرحمٰن کی طرح ’’اسلام خطرے میں ہے‘‘ کا نعرہ بلند نہیں کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ سراج الحق کو زیادہ اختیار ملنا چاہئے... مگر یہ بات بھی خطرے سے خالی نہیں کیونکہ ان کی وجہ سے عوام کے نزدیک جماعت کا روایتی تصور بدل سکتا ہے اور وہ اسے ایک روشن خیال جماعت سمجھ سکتے ہیں۔
ایم کیو ایم کے باس الطاف حسین بہت معقول باتیں کر رہے ہیں۔ ان کے لندن سے جاری ہونے والے بیان کا ہر لفظ جچا تلا ہوتا ہے۔ وہ حکومت اور دھرنے دینے والی جماعتوں سے تحمل، برداشت اور عقلمندی کا مظاہرہ کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اُنہیں خبردار بھی کر رہے ہیں کہ اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے تو کہیں ایسا نہ ہو صورتِ حال ہاتھ سے نکل جائے اور، جیسا کہ خدشہ ہے، دفاعی اداروں کو مداخلت کرنا پڑ جائے۔ اس تمام صورتِ حال میں ایم کیو ایم اور جماعتِ اسلامی معقول بات کر رہی ہیں۔ اس دوران مولانا فضل الرحمٰن، مفتی منیب الرحمن اور ان جیسے دیگر علماء کی حماقتوں کے مقابل کوئی حریف دکھائی نہیں دیتے۔ موجودہ بحران نے بہت سوں کو ایکسپوز کر دیا ہے... یقینا بحران کی کسوٹی پر ہی دانا اور نادان کی پہچان ہوتی ہے۔
محمود اچکزئی بھی حکومت کے حامی بن کر جمہوریت کا پرچم بلند کیے ہوئے ہیں۔ اس لئے ان کا غصہ بھی ریلیوں پر رواں ہے۔ کسی زمانے میں وہ بھی آزادی کے مجاہد کہلاتے تھے... کم از کم ڈرائینگ روم کی حد تک۔ تاہم آج کل ایسا لگتا ہے کہ اُنہیں خود کلامی کی بہت زیادہ عادت پڑ گئی ہے۔ جمہوریت کے علم برداروں کے لئے ایک پریشان کن چیزیہ ہے کہ مارچ کرنے والے انتہائی پرامن رہے ہیں۔ ان کی طرف سے کسی کھڑکی کا ایک شیشہ یا گملا تک نہیں ٹوٹا۔ اُنھوں نے کسی پر سنگ باری نہیں کی۔ پاکستان عوامی تحریک کااجتماع کئی دنوں سے سورج کی گرمی اور موسلادھار بارش براشت کر رہا ہے۔ تاہم وہ صبر کے مجسمے بن کر بھی مزاح کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اگر آپ ان کے دھرنے میں جائیں تو آپ کو ان کی مسکراہٹ اور زندہ دلی دکھائی دے گی۔ وہ پرعزم تو دکھائی دیں گے لیکن مشتعل ہرگز نہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنے پیروکاروں کو متحرک کریںگے۔ اب تک اُنھوں نے یہ نیکی کیوں نہیں کمائی؟ میں بھی ان کے پیروکاروں کو کچھ دن تک دھوپ اور بارش میں آسمان تلے بیٹھے دیکھنا چاہتا ہوں۔ لوگوں کو متحرک کرنا کہنے کو آسان ہے لیکن ایسا کرنا بہت مشکل ہے۔ پی ایم ایل (ن) بھی دھرنے کی مخالفت میں ریلیاں نکالنے کی کوشش میں ہے۔ ان کی ریلیوں میں عورتیں یا بچے نہیں دکھائی دیے۔ پی ایم ایل (ن) کی کچھ عہدیدار ہوں گی لیکن عوامی سطح پر خواتین اور بچوں کی نمائندگی ان کے جلسوں میں عنقا ہوتی ہے۔ خطابت کے جوش میں شہباز شریف آصف علی زرداری اور ان کی حکومت کو ’’علی بابا اور چالیس چور ‘‘ کہ اکرتے تھے۔ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ وہ ’’ مسٹر علی بابا‘‘ کو گردن سے پکڑ کر گھسیٹیں گے۔ تاہم یہ اُس وقت کی بات ہے۔ آج یہ س احباب مل کر جمہوریت کے محافظ بنے ہوئے ہیں۔ علی بابا اور پاکستان کے سب سے بڑے بنک نادہندگان جمہوریت کو بچانے کے لئے کمربستہ ہیں اوراُنہیں محمود خان اچکزئی اور مولانا ڈیزل کی بھی خدمات حاصل ہیں۔
میں بھی جمہوریت کا حامی ہوں، تاہم مجھے کچھ اور بھی فکر ہے۔ اگر شریف برادران کو کچھ ہوگیا تو جو کچھ اُنھوں نے میٹرو بس کے نام پر اسلام آباد میں طوفان برپا کیاہوا ہے، ا س کا کیا بنے گا۔ اُنھوں نے ہر جگہ جو ممکن تھی کھود ڈالی ۔ اس مارچ اور دھرنے پر تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ دھرنے کی وجہ سے شاہراہِ دستور پر گندگی پھیل گئی ہے۔ کیا اس گندگی سے اسلام آباد تباہی کے قریب پہنچ گیا ہے؟ کیا میگا پروجیکٹس نے اسے ادھیڑ کر نہیں رکھ دیا ہوا؟ پاکستان عوامی تحریک کے کارکن بہت منظم دکھائی دیتے ہیں۔
جب انہیں کھانا تقسیم کیا جاتا ہے تو نہایت منظم طریقے سے قطار بنا لیتے ہیں اور یہ عام پاکستانی کا خاصہ نہیں ہے۔ سپریم کورٹ اور قومی اسمبلی کے سامنے سڑک کے دوسری طرف عارضی ٹوائلٹ بھی قائم ہیں۔ اگرچہ اس مقام پر اس طرح قطار درقطار ٹوائلٹ قائم کرنے سے شاید مقام کی بے حرمتی کا تاثر ابھرے لیکن اسلام آباد کے قیام سے لے کر اب تک یہاں جو کچھ ہو چکا ہے، وہ بھی بہت قابلِ فخر نہیں ہے...
ٹوائلٹ میں تو پھر بھی طہارت کا پہلو نکلتا ہے۔ ان دھرنوں کے حوالے سے میں ایک عجیب بات بتانا چاہتا ہوں۔ میں خود کو بہت اچھا مسلمان تصور نہیں کرتا.... آپ میرا مطلب سمجھتے ہیں۔ لیکن جب پی ٹی آئی یا پاکستان عوامی تحریک کے دھرنے میںجاتا ہوں تو مجھے آدمیوں اور عورتوں کی آنکھوں، حتیٰ کہ ان کے گانوں اور رقص میں ایک انوکھا ولولہ اور جوش محسوس ہوتا ہے۔ اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ میرا ایمان بھی تازہ ہو رہا ہے۔ پلیز اسے بڑھاپے کی علامت نہ قرار دیجئے گا۔
بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ‘‘
إرسال تعليق