بھارت میں مسلمانوں کے خلاف حکمراں جماعت بی جے پی کی طرف سے جاری ’لَوجہاد‘ کی تحریک کے بعد اب کئی رہنماؤں نے اسلامی مدارس کو دہشت گردی کی تربیت گاہیں قرار دیا ہے۔
ادھر ایک سینیئر مرکزی وزیر نے الزام لگایا ہے کہ بھارت میں جانوروں کے مذبح خانوں میں گوشت کی تجارت سے جو منافع آ رہا ہے اسے دہشت گردی کی فنڈنگ میں استعمال کیا جا رہا ہے۔
بھارت کے مدارس اکثر بی جے پی اور سخت گیر ہندو تنظیموں کے نشانے پر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ مدرسے بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کی نظر میں بھی رہے ہیں۔ بھارت میں گذشتہ برسوں کے دوران مسلمانوں کے بعض حلقے شدت پسندی کی طرف مائل ہوئے ہیں اور مسلمانو ں کی کئی مذہب پرمبنی دہشت گرد تنظیمیں بھی وجود میں آئی ہیں لیکن خفیہ ایجنسیاں اور ماہرین شدت پسندی کے اس نئے رجحان کو مدرسوں کی تعلیم سے منسوب نہیں کر پائی ہیں حالانکہ ان کی روایتی تعلیم کے بارے میں تشویش ضرور رہی ہے۔
مبصرین کے خیال میں گذشتہ تین چار عشروں میں سعودی عرب اور ایران جیسے ممالک نے محتلف طریقوں سے بھارت کے مسلمانوں کے قدرے اعتدال پسند مذہبی نظریات اور اسلام کے صوفی اور بھارتی اثرات کو زائل کرنے کی زبردست اور منظم کوشش کی ہے اور اس میں انھیں خاطر خواہ کامیابی بھی ملی ہے۔ لیکن ابھی تک بھارتی مسلمان کشمیر سمیت بین الاقوامی دہشت گردی کا حصہ نہیں بن سکے اور نہ ہی بین الاقوامی دہشت گرد تنطیموں کے پرتشدد طریقۂ کار اور شدت پسند مذہبی نظریات بھارتی مسلمانوں میں مقبولیت حاصل کر سکے ہیں۔
خفیہ ایجنسیوں نے جن مسلمانوں کو دہشت گردی کے الزام میں اب تک گرفتار کیا ہے ان میں سے بیشتر یا تو ناخواندہ یا سکول کے ڈراپ آؤٹس تھے۔ البتہ کچھ لوگ جدید تعلیم سے آراستہ تھے۔
مسلم دانشوروں کا خیال ہے کہ بھارتی مدارس اعتدال پسندی، سائنسی نظریات اور ترقی پسندی کے علم بردار نہیں ہیں۔ ان کی نوعیت اسی طرح کےقدامت پسند اور روایتی اداروں کی سی ہے جیسے دوسرے مذاہب کے مذہبی ادارے ہوتے ہیں اور ان کے نصاب میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
کئي تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بھارت میں 1400 برس تک ساتھ رہنے کے باوجود ہندوؤں اور مسلمانوں میں ایک دوسرے کو سمجھنے کی کبھی کوئی جامع کوشش نہیں کی گئی۔
عوام کی سطح پر اقتصادی رشتوں اور روز مرہ کی جد وجہد کی نوعیت ایک جیسی ہونے کے سبب صدیوں تک عوام کے درمیان کوئی اختلاف اور نفرت نہ پنپ سکی۔ لیکن صدیوں تک دونوں مذاہب کے درمیان اختلاف، باہمی شکوک و شبہات اور ہتک ہی بھارت کی دو سب سے بڑي مذہبی برادریوں کے بقائے باہمی کے نقطۂ ہائے مشترک ٹھہرے۔ ابھی تک دونوں مذاہب کے رشتوں کی بنیاد منفی رہی ہے۔
رام جنم بھومی کی تحریک آزاد بھارت میں ہندو احیا پرستی کی سب سے منظم تحریک تھی جس کی بنیاد وہی منفی مشترک پہلو تھے جو گذشتہ صدی کے سیاسی اقتدار کی جد و جہد کے اوائل میں اجاگر ہونے لگے تھے۔
مذہب کی بنیاد پر ملک کی تقسیم نے مذہبی نفرت کے جوازکو تقویت بخشی ہے۔ تقسیم ہند کے دوران بر صغیر میں مذہب کے نام پر جس بربریت کا مظاہرہ کیا گیا تھااور معصوم انسانوں پر جس نوعیت کے مظالم ڈھائے گئے تھے اس کی انسانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
گذشتہ چند عشروں میں کانگریس اور کئی علاقائی جماعتوں نے اقتدار میں رہنے کے لیے بھارت کے سیاسی نظام کی بنیاد سیکولرزم کو اس طرح پیش کیا کہ جیسے یہ بھارت کے اجتماعی شعور کا غماز نہیں بلکہ یہ محض اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کے مفاد کے تحفظ کے لیے ہے اور بہت سی جماعتیں مسلمانوں کے مفاد کو نقصان پہنچانے کے لیے سیکولرزم کو ختم کرنا چاہتی ہیں۔
اس پالیسی نے بھارت کی ایک بڑی ہندو آبادی، بالخصوص پڑھے لکھے نوجوانوں کی ایک پوری نسل کو مسلمانوں کا مخالف بنا دیا ہے۔
آج بھارت تاریخ اور مذہبی نفرت کی اسی منزل پر ہے۔ یہ انھی نفرتو ں کے سلسلے ہیں جو جمہوری بھارت میں رام جنم بھومی کی تحریک کے دوران پہلی بار کھل کر سامنے آئے تھے۔
وزیر اعظم نریندر مودی جس زبان میں بھی بات کریں انھیں ابتدا سے ہی مسلم مخالف ہندو نواز رہنما تصور کیا جاتا رہا ہے۔ ان کی جماعت بی جے پی ایک ہندو میلانات والی نیم مذہبی تصورات کی حامل جماعت ہے۔
اسی لیے نہ صرف یہ کہ یوگی آدتیہ ناتھ اور ساکشی مہاراج جیسے متنازع لوگ نہ صرف بی جے پی کے امیدوار بنائے جاتے ہیں اور بڑی اکثریت سے فتح یاب ہوتے ہیں بلکہ انھیں اپنی تمام نفرت افشانیوں اور مسلم مخالف بیانات کے سبب پارٹی کے اندر اور ان کے حامیوں کے درمیان بے پناہ مقبولیت حاصل ہے۔
یہ سوچنا ہوگا کہ آخر یہ لوگ جو مستقبل کے بھارت کے تصور سے متصادم ہیں انھیں بھارتی معاشرے میں اتنی قبولیت کیوں مل رہی ہے؟
بھارت ایک ایسے سیاسی دور سے گزر رہا ہے جب ملک کی سب سے بڑی پارٹی کانگریس ناگزیر انتشار کی طرف بڑھ رہی ہے۔ بھارت کے نصف حصے پر حکومت کرنے والی کئی علاقائی جماعتوں کا وجود بھی بدلتے ہوئے پس منظر میں بے معنی ہو چکا ہے۔ یہ بعید از قیاس نہیں کہ تبدیلی کے نعرے پر مودی کی قیادت کے ساتھ اقتدار میں آنے والی بی جے پی آئندہ برسوں میں کانگریس کی جگہ لے گی اور ملک کی پرائم پارٹی ہو گی۔
دوسری جانب بھارت کے تقریباً 18 کروڑ مسلمان بی جے پی کے ہمیشہ مخالف رہے ہیں۔ بی جے پی کے اپنے زور پر اقتدار میں آنے سے ان میں عدم تحفظ کا احساس گہرا ہوگیا ہے۔ ایک طرف بی جے پی کو سیاسی سطح پر کسی چیلنج کا سامنا نہیں ہے اور دوسری جانب مسلمان بھی بہت سی سیاسی جماعتوں کی طرح اپنی برسوں کی روایتی انتخابی حکمت عملی کے سبب اس وقت بے یار و مدد گار کھڑے ہیں۔
لیکن اس سیاسی چیلنچ میں ایک بہت بڑی مثبت تبدیلی آئی ہے۔ ماضی کے مقابلے میں آج کا مسلمان اس سیاسی چیلنج کو صرف اور صرف جمہوری پیرائے میں دیکھ رہا ہے۔ وہ تیزی سے بدلتی ہوئی فضا میں ایک موثر جمہوری راستے کی تلاش میں ہے۔
وہ کانگریس، لالوؤوں اور ملائموں کی بخشی ہوئی ماضی کی تمام غربتوں، محرومیوں اور ناانصافیوں کے طوق کے ساتھ ملک کی اس نئی سیاسی صف بندی کا جائزہ لے رہا ہے جو آنے والے دنوں میں ملک کی سیاست کے مستقبل کا رخ طے کرے گی۔
إرسال تعليق