پرانے کالموں میں سے چند اقتباسات حاضر خدمت ہیں’’ شیخ رشید کے ماضی کے
ریکارڈ بج رہے ہیں مگر سیاستدانوں نے عزت نفس گھوٹ کر پی لی ہے۔عمران خان ان سب میں مختلف سمجھے جاتے تھے مگر وہ بھی غلطیوں پر غلطیاں کئے جا رہے ہیں۔ شیخ رشید کی ہمسفری سے تحریک انصاف کے ووٹر بھی نالاں ہیں۔مشرف کی باقیات کو اکٹھا کرکے کون سی تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔مسلم لیگ نون کو بھی مشرف کی باقیات سے اتحاد کے طعنے مل رہے ہیں مگر تبدیلی کا نعرہ عمران خان سے منسوب ہے ۔انہوں نے یہ بھی یقین دلایا تھاکہ وہ نئے چہروں کو متعارف کرائیں گے مگر اب تو اس شیخ رشید کے ساتھ بھی ہاتھ ملا لیا ہے،جسے کسی زمانے میں بے شرم کہا کرتے تھے اور کانوں کو ہاتھ لگا کر کہتے تھے کہ اللہ انہیں شیخ رشید جیسا جھوٹا اور لوٹا سیاستدان نہ بنائے ،اور آج راولپنڈی کے جلسے میں کھڑے شیخ رشید کے انداز سیاست کو خراج تحسین پیش کر رہے تھے۔شیخ رشید انٹرٹینمنٹ پروگراموں کے لئے نہایت موزوں کردار ہیں۔جو زبان تھیڑمیں استعمال ہو تی ہے ، وہی لب و لہجہ عوامی لیگ کے پلیٹ فارم پر استعمال کیا جاتاہے۔ عمران خان کو شیخ صاحب کی صورت میں لائوڈ سپیکر تو مل گیا مگر شیخ صاحب خان صاحب کی جو ڈگڈگی بجانے جا رہے ہیں ،اس کے بعد خان صاحب کو شیخ رشید کے بارے میں کہے پرانے جملے پھر سے دہرانے کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔شیخ رشید کے صدر پرویزمشرف کی وجہ سے پاکستان آج دہشت گردی کی جنگ میں جھلس رہاہے۔عمران خان بھی پرویز مشرف کے لئے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں،ورنہ مشرف کی باقیات ان کی پارٹی کی زینت نہیں بن سکتی تھی۔عوام فرسودہ نظام سے نجات چاہتے ہیں اور عمران خان کو نجات دہندہ سمجھا جا رہاہے۔تحریک انصاف پہلی بار انتخابات لڑنے جا رہی ہے۔عمران خان کو ووٹ ملیں گے مگر مسلم لیگ نون کا پلڑا بھی بھاری جا رہاہے۔ شیخ رشید نے عمران خان کی جو ’’ٹلّی‘‘ کھڑکا نی ہے ،اس کا اندازہ ابھی خان کو نہیں اور جب ادراک ہو گا بہت دیر ہو چکی ہو گی۔ مشرف دور میں عریانی کے ایک اڈے پر حملے کے ایک واقعہ پر جامعہ حفصہ کی خواتین نے بتایا کہ عریانی کا اڈہ چلانے والی فلاں عورت کے خلاف پہلے ہم نے پولیس کو شکایت کی کہ وہ اس کاروبار کا نوٹس لے لیکن ڈی ایس پی اور ایس ایس پی نے انکار کر دیا اور کہا کہ جب بھی ہم اس عورت کو لے کر آتے ہیں وہ تھانے نہیں پہنچ پاتی کہ پیچھے سے فون آجاتے ہیں۔پولیس افسران نے غازی صاحب سے کہا کہ آپ خود ایکشن لیں ،ہم اس معاملہ میں بے بس ہیں،اس عورت کے ہاتھ بڑے لمبے ہیں،اس کے ہاتھ شیخ رشید تک ہیں۔ہم جب بھی اس معاملہ کو ہاتھ ڈالتے ہیں ہمیں شیخ رشید کا فون آجاتا ہے ،ہماری نوکری کے لالے پڑ جاتے ہیں‘۔ پرویز مشرف کا یہ ’’اردلی‘‘ عمران خان کو لے ڈوبے گا ۔آج ملک جو کاٹ رہاہے ، شیخ رشید حکومت کا بویا ہوا ہے۔ جب نواز شریف کا طوطی بولتا تھا ،شیخ رشید اپنی کتاب میں لکھتے ہیں ’’مجھے مختلف پیشکشیں ہوتی ہیں مگر ان پیشکشوں کے عوض کسی کو میاں نواز شریف کی تصویر بھی نہ دوں‘‘۔2002 کے الیکشن میں شیخ رشید نے کہا تھا کہ یہ دونوں سیٹیں نواز شریف کے قدموں میں ڈال دوں گااور جب موصوف جیت گئے تو مشر ف کے قدموں میں ڈال دیں۔ 2008کے الیکشن میںمشرف کے قدموں کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ۔شرمناک ہزیمیت اور شکست کا سامنا کرنا پڑا۔یہ آوارگان سیاست۔۔۔سیاست کی مختلف چراہگاہوں میں منہ مارنے والے آجکل تحریک انصاف کی چراہگاہ میں منہ ماری کر رہے ہیں‘‘۔ اور چند پرانے اقتباسات شیخ قادری کے حوالے سے ’’’’مولانا کنٹینر‘‘ کامزاج موسم کی تبدیلی کے ساتھ انگڑائیاں لیتا ہے۔علامہ طاہرالقادری ماضی میں صدر مشرف کے لئے تقاریر لکھا کرتے تھے،آج بھی دونوں قائدین میں رابطے قائم ہیں۔سابق صدر مشرف سائبرس کے نقشبندی شیخ ناظم کے مرید ہیں جبکہ علامہ طاہر’’قادری‘‘ ہیں۔ علامہ قادری نے کراچی میں الطاف حسین کے درگاہ پر جاکر موصوف کو ’’اللہ کا انتخاب‘‘ کہا تھا مگر انہوں نے عین موقع پر علامہ کودھوکہ دے دیا گیا۔ ٹوپیاں تبدیل کرنے سے ملک کا نظام تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔رحمان ملک سمجھتے تھے کہ جھوٹ کے میدان میںان کا کوئی ثانی نہیں مگر جس روز ان کا واسطہ قادری صاحب سے پڑا ،رحمان ملک نے بھی کانوں کو ہاتھ لگا لئے۔عمران خان سچ بولتے ہیں، اس کے قادری صاحب کے ساتھ ایک پلیٹ فارم میں اکٹھے ہونے کی منطق سمجھ نہیں آئی۔الطاف حسین اور علامہ طاہر القادری فوج کو سیاست کی دعوت دیتے ہیں اور عمران خان فوج کے ساتھ ہیں۔ علامہ کی ایک ٹوپی روحانی ہے اور دوسری سیاسی ۔ ایک طرف ( ختم شریف) ہے اور دوسری طرف نواز شریف ہے۔خان ،علامہ اور الطاف میں نیچرل الائنس ہے۔ وڈیروں اور جاگیرداروں کے خلاف جہاد۔تبدیلی کی آواز۔انقلاب کی پکار۔وزارت اعظمیٰ کا خواب۔نواز شریف کے خلاف اتحاد۔علامہ قادری دہشت گردوں کے سخت خلاف ہیں۔دہشت
گردوں کے خلاف فتوے دے چکے ہیں۔ان کے بقول دہشت گرد ان کے خون کے پیاسے ہیں مگر گزشتہ برس موصوف پاکستان آئے اور اسلام آباد میں ایک احتجاجی تحریک اور دھرنا بھی دیا مگر ایک گولی نہ چلی !عمران خان کے جلسوں میں بھی دہشت گرد ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں ،اسے کرامت سمجھا جائے یا’’مہربانی‘‘ ؟ حکومت سے گزارش ہے کہ غیر محفوظ دارلخلافہ کو ’’دھرناآ باد‘‘ کا نام دیا جائے اور ہر عام و خاص کو دھرنوں کی کھلی اجازت دی جائے ‘‘۔۔۔شیخ قادری اور شیخ رشید (فتنہ وقت) ہیں ۔اسرائیلی لابی کے مستند ایجنٹس ملک میں انارکی پھیلانے کے جاب پر فائز ہیں ۔ پاکستان کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے لہذا غداران بے نقاب ہو کر رہیں گے۔
بشکریہ نوائے وقت
إرسال تعليق