اسلام آباد میں دھرنا دیے بیٹھے انقلابی میرے اس کالم کے لکھنے تک نواز شریف کا استعفیٰ لینے میں کامیاب ہوتے نظر نہیں آرہے تھے۔ ’’کفر اور ظلم کے نظام پر مبنی جمہوریت‘‘ کا خاتمہ تو بہت دور کی بات ہے۔ وہ وقت مگر اب بھی نہیں آیا جب ہیجانی کیفیت سے آزاد ہوکر ان تمام عوامل کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لیا جاسکے جنہوں نے 14اگست سے مسلسل کئی دنوں تک پوری دُنیا کو ’’امت مسلمہ کی واحد ایٹمی قوت‘‘ پاکستان کی ریاست اور حکومت کو نراجیوں کے ایک لشکر کے سامنے قطعی بے بس ہوا دکھایا۔
اسلام آباد میں درآئے انقلابیوں سے کہیں زیادہ ویسے بھی ان دنوں مجھے وہ دانشور مسلسل حیران کیے چلے جا رہے ہیں جنہوں نے اپنے اخباری کالموں اور ٹی وی اسکرینوں پر تبصروں کے ذریعے نام نہاد Qadri Phenomenaکو میرے جیسے جاہلوں کے لیے آسان زبان میں بیان کرنے کا ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے۔ بڑی جناتی انگریزی میں ہمیں سمجھایا جا رہا ہے کہ صدیوں سے محکوم ہوئے ہمارے غریب اور بے زبان لوگ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کی قیادت میں اپنے دلوں میں اُبلتے غصے کا اظہار کرنا سیکھ چکے ہیں۔
اسلام آباد میں دیا دھرنا اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں فی الوقت ناکام بھی رہا تو جلد یا بدیر ڈاکٹر صاحب کی بھڑکائی آگ بالآخر استحصالی نظام کو جلاکر خاک کر ڈالے گی۔ شہروں میں بکھرے نچلے متوسط طبقات اور جاگیرداروں کے ظلم سہنے والے غریب کسانوں نے اب اسلام آباد کا راستہ دیکھ لیا ہے۔ وہ پاکستانی ریاست کی ’’بدعنوان پولیس‘‘ اور ’’نااہل انتظامیہ‘‘ کے وحشیانہ جبر کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا بھی سیکھ چکے ہیں۔ اس بار ناکام رہے تو بھی ان کا آنے والے دنوں میں جمع ہوا لشکر اپنے مقاصد حاصل کیے بغیر پاکستان کے دارالحکومت سے ناکام نہیں لوٹے گا۔
ڈاکٹر قادری کی شخصیت اور اندازِ سیاست کے بارے میں اپنے تمام تر تحفظات کے باوجود میں خلوصِ دل سے اپنے قادری پرست دانشوروں کے بیان کردہ دلائل پر کھلے ذہن کے ساتھ غور کرنا چاہتا ہوں۔ مشکل مگر یہ آن پڑی ہے کہ قادری صاحب کے بارے میں قصیدہ خوانی میں مصروف حضرات انھیں ایک Originalیعنی طبعزاد انقلابی مفکر بھی تسلیم نہیں کر رہے۔ ان کی خطابت اور تنظیمی صلاحیتوں کے پُرجوش اعتراف کے بعد قادری پرست دانشور ان کے رچائے ’’انقلاب‘‘ کو بالآخر ملکی اور غیر ملکی قوتوں کے باہم اشتراک سے لکھے نئے اسکرپٹ کا عملی اظہار ثابت کرنا شروع ہوجاتے ہیں اور اسی مقام پر میرے دل سے بلھے شاہ کا ’’علموں بس کریں او یار‘‘ آہ کی صورت نکل آتا ہے۔
سمجھایا ہمیں یہ جا رہا ہے کہ 1980ء کی دہائی میں افغانستان پر قابض کمیونسٹ افواج کے خلاف پاکستان اور افغانستان کے نوجوانوں کو ’’جہاد‘‘ کے لیے تیار کرنے کی خاطر ایک مخصوص مسلک پر خصوصی توجہ دی گئی۔ تیل کی دولت سے مالا مال چند عرب ممالک نے اس مسلک کے مدرسوں کا ہمارے خطے میں ایک وسیع تر نظام قائم کیا۔ اس نظام کی بدولت تیار ہوئے ’’مجاہدوں‘‘ نے سوویت یونین کو شکست دے کر تباہ وبرباد کردیا۔
کمیونسٹ نظام کے خاتمے کے باوجود مگر اس مسلک کی بھڑکائی آگ بجھ نہ سکی اور اس مسلک نے اپنے اصل سرپرستوں کی زندگی اجیرن بنا ڈالی۔ نائن الیون کے بعد جب امریکا نے خود کو ان کی یلغار سے محفوظ کرلیا تو ’’جہادیوں‘‘ نے اپنے غصے کو Internalize کرلیا۔ مختلف النوع لشکر اور سپاہ مسلکی بنیادوں پر مجتمع ہوکر پاکستان جیسے ممالک کے ریاستی نظام کے لیے خطرناک بن گئے۔ ریاست کو فیصلہ کن شکست نہ دے سکنے کی وجہ سے انھوں نے اپنے سینوں میں پلتے غصے کو مسلکی بنیادوں پر معاشرے کو تقسیم اور غیر محفوظ بنانے میں صرف کردینا شروع کردیا۔
1980ء کی دہائی میں پھیلائے Narrativeکے حتمی تدارک کے لیے اسلام کو ’’ایک نیا چہرہ‘‘ درکار تھا۔ ایک ایسا مفکر جو Softاور Moderateاسلام کو اپنے زور بیان سے لوگوں کے دل میں بٹھا سکے۔ ’’فکری تیاریوں‘‘ کے بعد پھر ضرورت پڑی ایک ایسی تنظیم کی جو مسلکی تقسیم سے بالاتر ہوکر استحصالی نظام سے تنگ آئے نوجوانوں کو ایک نئے سیاسی بیانیے کے ساتھ منظم کرسکے۔ اپنی ذہانت، فطانت اور وسائل کے بل بوتے پر ڈاکٹر قادری نے ایک ایسی ہی تنظیم کھڑی کرڈالی ہے۔
اپنا گھر بار چھوڑ کر کئی دنوں سے ساون بھادوں کے بے رحم موسم میں اسلام آباد کی بے روح سڑکوں پر براجمان نوجوان ریاستی تشدد کا ڈٹ کر مقابلہ کررہے ہیں۔ سب سے زیادہ حیران کن جذبہ مگر ان بچیوں اور خاص کر ایسی ماؤں میں نظر آرہا ہے جو اپنے شیر خوار بچوں کے ساتھ اس شہر میں جم کر بیٹھی ہیں۔ جذبات کی اس شدت کو شکست دینا پاکستان کے بوسیدہ ریاستی نظام کے بس کی بات ہی نہیں رہی۔ ’’جعلی مینڈیٹ‘‘ کی بنیاد پر پاکستان کی اسمبلیوں میں بیٹھے ’’نااہل اور بدعنوان سیاست دان‘‘ تو ان کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتے۔
قادری صاحب کی شان میں رطب اللسان دانشور نجانے کیوں بھول چکے ہیں کہ ریاست اپنی قوت کا اظہار صرف پولیس اور سیاسی نظام کے ذریعے ہی نہیں کرتی۔ عدلیہ بھی ’’نظام کہنہ‘‘ کی واحد محافظ نہیں ہوتی۔ ریاست کی جبریہ طاقت کا اظہار حتمی صورت میں اس کی مسلح افواج کے ذریعے ہوتا ہے۔ قادری کے متوالوں کے جذبوں کی شدت اور حقیقت کیا اس وقت بے نقاب نہیں ہوگئی تھی جب مائیکروفون پر دیے ایک پیغام کے ذریعے پاکستان ٹیلی وژن کے اسلام آباد مرکز میں ہوا قبضہ لاٹھی، آنسو گیس اور گولی کے استعمال کے بغیر ختم کروا لیا گیا۔
ٹیلی وژن پر قبضے کے ہیجانی مراحل کے دوران قادری پرست دانشوروں کی اکثریت نے بڑی سفاکی کے ساتھ انقلابیوں کے اس اقدام کو جائز ٹھہرانے کے لیے ہزارہا جوازگھڑے۔ ہمیں بتایا گیا کہ عوام کے دیے ٹیکسوں سے چلنے والا سرکاری ٹی وی حکومت وقت کے غلامانہ پراپیگنڈے میں مصروف رہتا ہے۔ لوگ اپنے ٹیکسوں سے چلائے ذرایع ابلاغ پر اب صرف سچ سننا چاہتے ہیں۔
اگر صرف اور صرف سچ سننے اور سنائے جانے کی ایسی تڑپ پی ٹی وی کے اسلام آباد مرکز پر قبضہ کرنے والوں کے دلوں میں واقعی موجود تھی تو ریاست ہی کے ایک اور ادارے کے ایک افسر کی جانب سے مائیکروفون پر کیے گئے اعلانات کے بعد انقلابی ہنستے مسکراتے اس مرکز سے باہر کیوں آگئے تھے۔ دونمبری کے ایسے مظاہرے میں نے انقلابی جدوجہد کی طویل تاریخ کو پڑھتے ہوئے کبھی دریافت نہیں کیے تھے۔ قادری پرست دانشور مگر ان کو دیکھ ہی نہیں پاتے تجزیہ کرنے کی جسارت کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس
إرسال تعليق