مریم نواز نے کہا ہے کہ جاوید ہاشمی ہی ایک آدمی ہے جو تحریک انصاف میں عقل مند ہے۔ مریم جانتی ہے کہ ہاشمی جرات مند بھی ہیں۔ عقلمندی، ہنرمندی، دردمندی اور جرات مندی برابر برابر اور ساتھ ساتھ نہ ہوں تو اس کی شخصیت کی تکمیل نہیں ہوتی۔ وہ جب ن لیگ میں تھے تو بھی ایسے ہی تھے۔ تب ان کی عقلمندی سے فائدہ کیوں نہ اٹھایا گیا۔ جب وہ خفا ہوئے اور انہیں تحریک انصاف کی طرف اغوا کیا جا رہا تھا میرے خیال میں انہیں گمراہ بھی کیا گیا۔ اس کے لئے ہمیں برادرم حفیظ اللہ سے بہت شکایت ہے۔ وہ اپنے بھائی انعام اللہ خان نیازی کو بھی تحریک انصاف میں لے گئے۔ وہ دو دفعہ ایم پی اے بھی رہے۔ انہوں نے شریف برادران کے لئے قربانیاں بھی دیں۔ وہ بدقسمت آدمی ہیں۔ اگر وہ ن لیگ سے نہ گئے ہوتے تو آج وزیر ہوتے۔ انہوں نے بہت بڑی غلطی کی ان سے غلطی کرائی گئی۔ حفیظ اللہ نیازی کو بھی عمران نے نظرانداز کر دیا ہے۔ ان کے بڑے بھائی میری پسندیدہ شخصیت دلیر اور دبنگ سعیداللہ خان نیازی نے انعام اللہ کو منع کیا کہ ن لیگ کو نہ چھوڑو۔ سعید اللہ خان تحریک انصاف کے بانی ممبران میں سے ہیں اور آج ابتدائی لوگوں میں ایک بھی عمران کے ساتھ نہیں ہے۔ شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین اور سیف اللہ نیازی جیسے لوگ عمران کے مقربین ہیں۔ وہی انہیں مروائیں گے۔ سیف اللہ نیازی کا تعارف عمران خان سے سعیداللہ خان نیازی نے کرایا تھا۔ وہ منفرد گلوکارہ ناہید نیازی کے رشتہ دار ہیں۔
جاوید ہاشمی پنجاب یونیورسٹی کے زمانے سے میرے دوست ہیں۔ انہیں ن لیگ چھوڑ کر نہیں آنا چاہئے تھا۔ انہیں جو شکایت نواز شریف سے تھی اس سے زیادہ شکایتیں عمران خان سے ہیں مگر تب میری کلاس فیصلہ کلثوم نواز ہی جاوید ہاشمی کے پاس چلی گئی ہوتیں تو کام نہ بگڑتا۔ مریم نواز کو بھی خیال نہ آیا ورنہ ہمارے گھروں کی روایت ہے کہ بیٹی چل کر آ جائے تو ہم اس کی بات رد نہیں کرتے۔
اب جاوید ہاشمی ن لیگ میں واپس نہ جائیں۔ تحریک انصاف کا خیال بھی دل سے نکال دیں ورنہ لوگ سمجھیں گے کہ یہ وہاں سے بھیجے گئے تھے۔ وہ جماعت اسلامی میں واپس چلے جائیں۔ اپنی جماعت بنا لیں۔ وہ شیخ رشید کی عوامی لیگ سے بہت بہتر ہو گی۔ ورنہ سیاست سے ریٹائرمنٹ لے کے باغبانی کریں۔ گھر کو وقت دیں اور فلاحی کام کریں۔
مریم نواز کہتی ہے کہ اب جاوید ہاشمی کو نواز شریف یاد تو آتے ہوں گے۔ کیا نواز شریف کو بھی جاوید ہاشمی یاد آتے ہیں۔ ہاشمی نے نواز شریف کے لئے بہت قربانیاں دی ہیں۔ ان کا احساس تو نواز شریف کو ہو گا۔ ان سے اختلاف کے باوجود مجھے یہ اعتراف بھی ہے کہ وہ مروت والے آدمی ہیں۔ ملنسار اور شائستہ مزاج۔ ان میں رعونت بھی ہے ضد بھی ہے۔ وہ اپنے ساتھ زیادتی نہیں بھولتے۔ معاف نہ کرنے کی عادت بھی ان میں ہے۔ مرے مرشد و محبوب مجید نظامی کا ایک جملہ بہت بامعنی ہے۔ محمد نواز شریف سے میری دوستی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف سے دوستی نہیں ہے۔
میرے خیال میں وزیراعظم ہائوس کے دروازے تک جانے والے مظاہرین پر تشدد نہیں کرنا چاہئے تھا۔ پندرہ سولہ دن تک صبر و تحمل اور طاقت کا استعمال نہ کرنے کا سارا کریڈٹ پل بھر میں ضائع ہو گیا۔ چودھری نثار کی پالیسی ہے اتفاق کرنے کے لئے یہی دن رہ گیا تھا۔ اسے عمران نے فیلڈ مارشل کا خطاب دیا ہے۔ لفظ مارشل پر غور کریں۔ وہ عمران کا دوست بھی ہے اس نے بھی کہا ہے کہ میں فرض پورا کروں گا اور دوستی بھی نبھائوں گا۔ یہ دونوں کام بیک وقت چودھری صاحب سرانجام دے رہے ہیں۔ قومی اسمبلی میں ان باتوں سے فوج بھی ناراض ہوئی ہے۔ چودھری نثارکا اختلاف بھی نواز شریف کے ساتھ ہے مگر وہ سیاسی آدمی ہیں۔ معاملے کو سنبھالنا اسے آتا ہے جبکہ جاوید ہاشمی کو میں پوری طرح سیاسی آدمی نہیں سمجھتا۔ چودھری نثار کو نواز شریف سے جاوید ہاشمی پر ترجیح دی تو کوئی بات تو چودھری صاحب میں ہو گی۔ مگر تحریک انصاف میں شاہ محمود قریشی کی صورت میں ایک آدمی جاوید ہاشمی کے لئے زیادہ خطرناک ثابت ہوا ہے۔ اسے بھی عمران نے ترجیح دی مگر وہ عمران کو بھی سبق سکھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
جاوید ہاشمی کے ساتھ خواجہ سعد رفیق بھی تھے۔ ان کی وجہ سے کئی باتیں زبان پر آتے آتے رہ گئیں مگر شاہ محمود قریشی کے عمران کے آس پاس صورتحال بنانے کے بعد ثابت ہو گیا ہے اور یہ بات زبان پر آ گئی ہے کہ شاہ محمود قریشی کو پیپلز پارٹی نے ن لیگ کی طرف بھیجا تھا۔ انہوں نے عمران کے سپرد کر دیا۔ وہ ’’صدر‘‘ زرداری کی طرف سے ’’امریکہ کا وزیر خارجہ‘‘ تھا۔ اس کے امریکی رابطوں کا اندازہ لگائیں کہ امریکہ کے اعلانات کے بعد شاہ محمود نے کہا کہ امریکہ افغانستان سے چلا گیا تو ہم کیا کریںگے۔ وہ وہی کچھ کر رہا ہے جو اس سے کرایا جا رہا ہے۔
جاوید ہاشمی مارچ اور دھرنے کے حق میں نہ تھا مگر اس کا یہ فیصلہ ٹھیک ہے کہ وہ پھر ملتان چلا گیا ہے۔ تحریک انصاف کی کور کمیٹی میں فیصلہ ہوا تھا کہ ہم وزیراعظم ہائوس پر چڑھائی نہیں کریں گے مگر عمران نے اچانک کہا کہ ہماری مجبوری ہے۔ اس مجبوری کی وضاحت جاوید ہاشمی نے کی کہ شیخ رشید اور سیف نیازی نے عمران کے کان میں کچھ کہا اور پھر مجبوری پیدا ہو گئی۔ سرگوشی اچانک شرگوشی بن گئی۔ سیف نیازی کی عمران خان سے قربت اور شیخ رشید کی قربت میں فرق ہے۔ سیف عمران کا ’’خصوصی‘‘ خدمتگار ہے۔ شیخ صاحب آٹھ بار وزیر رہے ہیں۔ اس حوالے سے تیسرا آدمی شاہ محمود قریشی ہے۔ تینوں کا کام الگ الگ ہے مگر کام کرنے والے ایک جیسے ہیں۔
مریم نواز کے لئے بھی بہت باتیں عمران اور دوسرے کئی لوگوں نے کی ہیں اور 100 ارب روپے کے قرضے کی سربراہی پر بھی تنقید کی گئی ہے۔ نجانے کیوں نواز شریف کا ناقد ہونے کے باوجود میرے دل میں مریم کے لئے نرم گوشہ ہے۔ اس کے انداز و اطوار ہمارے گھروں کی بیٹیوں جیسے ہیں۔ اس کے سیاسی بیانات میں بھی شائستگی ہوتی ہے۔ یہ بتایا جائے کہ گھر کے رشتوں کی اہمیت کہاں نہیں ہے۔ ازل سے یہی طریق کار ہے۔ میرے خیال میں میرٹ کا خیال رکھتے ہوئے یہ بات معیوب نہیں ہے۔ بیٹی کس کو پیاری نہیں ہوتی۔ مریم نواز نے سیاست میں اپنی جگہ بنانے کے لئے مخصوص ہتھکنڈے استعمال نہیں کئے۔ وہ ایک بیٹی کے طور پر اپنا تشخص بنانا چاہتی ہے۔ بینظیر بھٹو بھی بیٹی تھی مگر آج جیالے اسے اپنے والد کا ہم مرتبہ سمجھتے ہیں۔ اندرا گاندھی بھی نہرو کی بیٹی تھی۔ حسینہ واجد شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی ہے۔
إرسال تعليق